بیس سالہ صحافتی سفر میںہم نے واشنگٹن تو درکنار نیویارک میں بھی کبھی کسی دیسی شخصیت یا حکمران کا ایسا تاریخی جلسہ نہ سنا نہ دیکھا۔ یہ جلسہ عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے منعقد کیا گیا جس سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے میزبان پر بھی ان کی مقبولیت کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ واشنگٹن میں کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کا یہ اپنی نوعیت کا واحد جلسہ تھا۔ اس سے قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنے دورہ امریکہ کے دوران وہاں پر مقیم انڈین شہریوں سے خطاب کر چکے ہیں۔مگر خان کے سپورٹروں اور دیگر پاکستانی کمیونٹی کے بیس ہزار سے بھی زائد مجمع نے تاریخ رقم کر دی۔ عمران کا خطاب سننے کیلئے جوش دیدنی‘ پاکستان زندہ باد کے نعرے‘ کینیڈا و دیگر ممالک سے مہمان وزیراعظم عمران خان کا خطاب سننے کیلئے بڑی تعداد میں پاکستانی کیپٹل ون ایرینا میں جمع ہوئے۔ مختلف ریاستوں سے اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد واشنگٹن آئی۔ جن میں خواتین بچے اور مرد شامل تھے۔ امریکہ میں گرمی نے بھی اپنے ریکارڈ توڑ دئیے اس کے باوجود پاکستانی قومی پرچم اٹھائے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ ہم بھی نیویارک سے واشنگٹن کی ایک بس کے مسافر تھے۔ تمام حال کے چشم دید گواہ بھی۔دیار غیر کے باسیوں نے ملی ترانے گا کر وطن سے محبت کا اظہار کیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ لوگ امریکہ کے مختلف حصوں اور کینیڈا اور دوسرے قریبی ممالک سے بسوں، جہازوں اور گاڑیوں پر پہنچ رہے تھے۔ جلسہ میں شرکت کے لیے ڈھول ڈھمکوں اور بھنگڑوں کا انتظام بھی کیا گیا۔ لوگوں کے جذبات اور احساسات یہ ہیں کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں اور کرپشن کا خاتمہ ان کا منشور ہے۔ یہ ملک کو کھائیں گے نہیں بلکہ لوگوں کی مدد کریں گے۔ لوگ اس اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان عمران خان کی سربراہی میں ہر رشوت اور دوسری برائیوں سے پاک ہو گا اور ترقی کی جانب سفر کرے گا۔ امریکہ کے قلب واشنگٹن کے مرکز ی علاقہ میں قائم کیپیٹل ایرینا جس میں بیس ہزار افراد کی گنجائش ہے کھچا کچھ بھر گیا تو سکیورٹی نے دروازے بند کر دیئے جبکہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی آمد کا سلسلہ شام گئے تک جاری رہا مگر انہیں ہال کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ مل سکی۔ یاد رہے کہ جلسہ سے ایک روز پہلے وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کے دورے پر حکومت کی جانب سے شاندار پروٹوکول دیا گیا۔
وزیراعظم کے قافلے میں درجن بھر سرکاری گاڑیاں، ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور ٹریفک پولیس کی گاڑیاں شامل تھیں۔ اس موقع پر پاکستانی کمیونٹی کے افراد کی بڑی تعداد بھی وزیراعظم کا استقبال کرنے پہنچی۔ وزیراعظم عمران خان کا پاکستانیوں کی جانب سے ڈھول کی تھاپ پر پر تپاک استقبال کیا گیا۔ واشنگٹن کے شہری علاقوں اور امریکہ کی دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے پاکستان ہاؤس کے نزدیک میساچوسٹس ایونیو پر قطاروں میں کھڑے ہو کر وزیراعظم کا استقبال کیا۔ جہاں تک خان صاحب کے خطاب کا تعلق ہے تو پرانی باتیں دہرائی گئیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے جلسے میں ان کے مسائل اور مطالبات کو یکسر نظر انداز کر دیاگیا۔ بروز اتوار دوپہر بارہ بجے سے شام آٹھ بجے تک عوام اپنے لیڈر کے لئے کھڑے اور بیٹھے رہے۔ دوسرے روز وائٹ ہائوس میں امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات ہوئی۔ ہم بھی صحافیوں کے گروپ کے ساتھ وائٹ ہائوس پہنچے۔ واشنگٹن سفارتخانے میں تعینات پریس منسٹر عابد سعید امریکہ میں مقیم اور پاکستان سے آئے صحافیوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔ماضی کی روایت سے بر خلاف عمران خان اپنے ساتھ صحافیوں کی جنج لے کر نہیں آئے۔ وائٹ ہائوس اوول آفس کے مین دروازے پر صدر ٹرمپ وزیراعظم پاکستان کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دوسری گاڑی میں تشریف لائے۔تمام میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو اوول آفس لے جایا گیا۔ ہم نے سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی صدر بارک اوباما سے ملاقات کی بھی کوریج کی تھی۔ اس مرتبہ عمران خان اور ٹرمپ کی ون ٹو ون گفتگو سے پہلے صحافیوں کے ساتھ پریس کانفرنس رکھی گئی اور یہ پریس کانفرنس ماضی کی نسبت بہت طویل رہی۔ تمام صحافیوں کو سوالات کا موقع ملا۔ ہم نے وزیر اعظم عمران خان سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق سوال اٹھایا کہ کیا وزیراعظم عمران خان اس موقع پر قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کے مسئلے پر صدر ٹرمپ سے بات کریں گے، تو انہوں نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ ہاں اس ایشو پر بھی بات ہو گی۔ اس سوال پر صدر ٹرمپ نے بھی یہی کہا کہ اس مسئلہ پر بات ہو گی اور پھر اسی شام امریکی میڈیا کے فاکس ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران وزیر اعظم نے عافیہ صدیقی کا سوال اٹھا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی بات ہو سکتی ہے، شکیل آفریدی کا درجہ پاکستان میں جاسوس کا ہے، ہم امریکہ کے اتحادی تھے، اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ مسئلہ کشمیر سے سوال پرڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی اور کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی مقبوضہ کشمیر کے تنازع کے حل کے لئے مجھ سے کہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں پاکستان کی کوئی مدد کر سکا تو مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنا پسند کروں گا، امریکہ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات بہتر
کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے، عمران خان اگر میں کچھ کر سکتا ہوں تو آگاہ کریں۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا، پاکستان اور بھارت کو قریب لا سکتا ہے، ہم بھارت کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان کے پاس وہ پاور ہے جو دیگر ممالک کے پاس نہیں، پاکستان ماضی میں امریکہ کا احترام نہیں کرتا تھا، اب افغانستان میں ہماری کافی مدد کررہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں سخت رویہ ختم کر کے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام لانا چاہیے، میں شروع سے کہہ رہا ہوں، افغانستان کے مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں، اسے مذاکرات سے حل کرنا ہوگا۔ ٹرمپ نے اس پر کہا کہ میں عمران خان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد کم کر رہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لئے امریکہ بہت اہمیت رکھتا ہے، وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مجھے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، صدر ٹرمپ سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا، اس جنگ میں پاکستان نے 70ہزار جانوں کی قربانی دی، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستانی معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ افغان تنازع کا حل صرف طالبان سے امن معاہدہ ہے، ماضی کے مقابلے میں افغان مسئلے کے حل کے لئے امن معاہدے کے زیادہ قریب ہیں۔ عمران خان نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دینے کے قابل ہوں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میری اور عمران خان کی نئی قیادت آئی، پاکستان میں اب ایک عظیم لیڈر کی حکومت ہے، عمران خان مقبول ترین وزیراعظم ہیں۔ اس سے قبل وائٹ ہائوس پہنچنے پر وزیراعظم عمران خان کا استقبال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان گرمجوش مصافحہ اور خیر مقدمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وائٹ ہائوس پہنچے، عمران خان کو ٹرمپ اوول آفس لے گئے۔ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی ون آن ملاقات سے قبل دونوں سربراہان مملکت نے میڈیا سے رسمی گفتگو کی۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان سے ملاقات کو خوشگوار دیکھ رہا ہوں، امید ہے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔ ون آن ون ملاقات کے بعد دونوں سربراہان میں وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوئی، جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی و دیگر موجود تھے۔ بشمول ایران افغانستان اور خطہ سے متعلق دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ میٹنگ سے بہت خوش ہوں کیوں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ صاف گو انسان لگے جو لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں کرتے، میرا پورا وفد بھی میٹنگ سے بہت خوش ہے۔
تاریخی جلسہ اور خان ٹرمپ ملاقات
Jul 25, 2019