آمر جرنیل ضیاء الحق نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں صدر پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 58 ٹو- بی کے تحت منتخب اسمبلیاں اور حکومت توڑنے کا اختیار دے دیا۔آٹھویں ترمیم کے بعد صدر نے غیر معمولی طاقت حاصل کر لی حالانکہ 1973ء کے آئین کے مطابق صدر ریاست کا علامتی سربراہ ہوتا تھا اور منتخب وزیراعظم طاقت کا مرکز اور محور تھا۔ آرٹیکل 58 ٹو-بی کے تحت جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا۔ پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے یہی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک بار میاں نواز شریف اور ایک بار محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا۔ پاکستان کے صدر فاروق خان لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو یہی اختیارات استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا۔ جب تک صدر پاکستان کے پاس 58ٹو- بی کے اختیارات رہے پاکستان کی ٹرائیکا صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف پر مشتمل رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف ہمیشہ فیصلہ کن کردار کے حامل رہے۔ آرمی چیف اگر صدر پاکستان کے ساتھ مل جاتے تو وہ مضبوط ہوجاتا اور اگر وہ وزیراعظم کے ساتھ مل جاتے وزیراعظم مضبوط ہوجاتا۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں صدر پاکستان سے آرٹیکل 58 ٹو- بی کے اختیارات واپس لے لئے اور وہ ایک بار پھر ریاست کے علامتی سربراہ بن کر رہ گئے۔ پاکستان کے وکلا کی بے مثال پاپولر تحریک کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے طاقت حاصل کرلی جو جوڈیشل ایکٹوزم کے ذریعے حاصل کی گئی۔ پاکستان کی موجودہ ٹرائیکا وزیراعظم پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف پر مشتمل ہے۔ ماضی میں پاکستان کی ٹرائیکا اکثر اوقات اقتدار کی سیاست میں ملوث رہی۔
پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے جو وزیر اعظم کو منتخب کر کے اسے ریاست کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات دیتا ہے اصولی طور پر آئین کی رو سے وزیراعظم کو بااختیار اور طاقتور ہونا چاہئے مگر چونکہ پاکستان کی پارلیمان کی کارکردگی عوام کی نظر میں تسلی بخش نہیں رہی اور سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم نہیں ہیں۔ ملک کے اندر مختلف سطحوں پر سیاسی جماعتوں کی فعال تنظیمیں موجود نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف شخصیات کے اردگرد ہی گھومتی ہیں اس لیے وہ اپنی آئینی طاقت اور اختیارات کو استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہیں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے سے ریاست کے وہ ادارے بالادستی اختیار کر لیتے ہیں جو بہتر طور پر منظم اور مضبوط ہیں خفیہ ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت نے بھی سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا۔ پاک فوج کے سپہ سالار سات لاکھ فوج کے سپہ سالار ہیں پاک فوج کے پاس ایٹمی صلاحیت موجود ہے جس کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کی پہلی دس طاقتور افواج میں کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان چونکہ آئینی اختیارات کے حامل ہیں اور توہین عدالت کا قانون ان کو مزید مضبوط اور طاقتور بناتا ہے جبکہ پاکستان کے وکلاء سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہتر طور پر منظم اور متحد ہیں۔ جب پاکستان کے وکلاء عدلیہ کے ججوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی عدلیہ مزید طاقت حاصل کر لیتی ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری انداز میں منظم اور متحد ہوتیں تو پاکستان کے ریاستی اداروں کے درمیان توازن پایا جاتا جو سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کی وجہ سے عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے۔ عدلیہ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اب تک پاکستان کے دو وزیر اعظموں یوسف رضا گیلانی میاں نواز شریف کو کو گھر بھیج چکی ہے۔ یہ شاید تاریخ کا سنہری موقع ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا تعلق کسی سرمایہ دار اور جاگیردار خاندان سے نہیں ہے اسی طرح پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا پاکستان کے باشعور عوام کی ان سے بڑی توقعات ہیں۔
پاکستانی ٹرائیکا کے تینوں طاقتور افراد اپنے بیانات کی روشنی میں متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان مافیاز کی وجہ سے آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلایا جا رہا اور پاکستان کو جس تیز رفتاری سے ترقی اور خوشحالی کا سفر طے کرنا چاہئے تھا اس میں پاکستان بُری طرح ناکام ہوا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ٹرائیکا کے تینوں طاقتور افراد کو پاکستان کی پسماندگی اور بیڈ گورننس کا کا شدت سے احساس ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ ریاستی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہو چکا ہے اور انقلابی اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان 22 کروڑ افراد کا ملک ہے اور ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے لہٰذا ریاست بے حسی اور مجرمانہ غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی ٹرائیکا یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ قومی ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم سے کام لے کر انقلابی اصلاحات نافذ کر گزرے جن کے بغیر پاکستان جمود سے باہر نہیں نکل سکتا اور عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان کی ٹرائیکا اگر مصمم ارادہ کر لے کہ اس نے ریاست کی ان تمام رکاوٹوں کو دور کر دینا ہے جو آئین اور قانون کی حکمرانی فوری اور سستے انصاف کی فراہمی یکساں اور شفاف احتساب قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور غریب عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں تو پاکستان کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ ریاست اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بامعنی بامقصد اصلاحات کی خاطر قومی اتفاق رائے کے لئے پاکستان کی موجودہ پارلیمانی جماعتوں سے بھی مشاورت کی جا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں، نیو ورلڈ آرڈر جنم لے رہا ہے۔ ان حالات میں سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام والا ملک مستقبل کا تعین اور تحفظ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کی خاطر پاکستان کی موجودہ ٹرائیکا کو ایسے اقدامات اُٹھانے سے ہرگز گریز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا مضبوط اور طاقتور مافیا ریاست کی سلامتی آزادی اور خود مختاری کے لیے سکیورٹی رسک بن چکا ہے جس کے ساتھ آہنی طور پر نپٹنا انتہائی لازم ہو چکا ہے۔ انقلابی اصلاحات کے بغیر نئے انتخابات کسی صورت ریاست پاکستان کے پیچیدہ بحران کو حل نہیں کر سکیں گے بلکہ بحران میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ پاکستان کی پارلیمان انتظامیہ عدلیہ اور پاک فوج کی طاقت ریاست کے 22 کروڑ عوام کے اجتماعی مفاد میں استعمال ہونی چاہئے۔ پاکستان کے عوام طاقت کے مراکز سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اپنی انا سے باہر نکل کر ریاست کے وسیع تر مفاد میں آپس میں مشاورت کریں اور ریاست کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے پائیدار اور مستقل حل تلاش کریں۔ اگر ریاست مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی تو خدانخواستہ ریاست کا مستقبل ہی تاریک ہو جائے گا۔