کسی نے فیس بک پر کھراس کی ویڈیو لگائی تھی۔ بیل کھراس کھینچ رہے ہیں۔ اس سے کنواں بھی یادآ گیا۔ کنویں سے بھی بیلوں کے ذریعے پانی زمین سے کھینچ کر فصلوں کو لگایا جاتاتھا۔ کنویں کے چوہے کی ٹک ٹک کی آواز میں بھی سُر ہوتا۔ سائیکل کے کتوں کی طرح کنویں کا چوہا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ کھراس تو اب بھی کہیں نہ کہیں ہونگے، کنویں ناپید ہو چکے ہیں۔ گڑ شکر بنانے والے بیلوں کے ذریعے چلنے والے بیلنے بھی قصہ ماضی بن رہے ہیں۔
گندم ،گاہنے، والے ،پھلے، تو اب بالکل ہی مفقود ہو گئے ہیں۔ ہوش سنبھالا تو خواتین کو ہاتھ سے چلانے والی چکی سے گندم پیستے بھی دیکھا۔ ایک بیلنا کپاس سے روٹی اور بنولے الگ کرنیوالا بھی ہوا کرتا تھا۔ سویاں بنانے والی مشین' گھوڑی اب نظر نہیں آتی۔ چرخہ کھڈیاں بھی قصہ پارینہ ٹھہریں۔ چرخہ نہ دیکھنے والے روٹی کی پونی اور دھاگے کی ’’اَٹی‘‘ سے بھی ناواقف ہونگے دمکڑہ اور تکلا بھی چرخے کے پارٹس ہیں۔ بڑیاں بنانے کا رواج بھی ختم ہو گیا۔گندم پیسنے اور چاول چھڑنے کی مشینیں خال خال تھیں۔خواتین گھروں میں جہاں چھوٹی سی چکی پر آٹا پیستیں وہیں چاول چھڑنے کے لئے لکڑی کا’چٹھو‘ ہوتا جس میں ایک کلو تک مونجی ڈال کر لکڑی کے چار پانچ فٹ کے موٹے ڈنڈے ’’مولھے‘‘ سے ایک' ڈَ نگ' کے چاول چھڑ لیے جاتے۔ چٹھو کا کام زمین میں چھوٹاسا سوراخ نکال کر بھی لیا جاتا ۔ چٹھو اوکھلی اورموہلا موکھلی کہلاتا ہے۔ کسی ایک گھر میں ماچس ہوتی اور شام کو آگ ایک گھر سے اردگرد کے گھروں تک پہنچ جاتی۔ جنگل کی آگ کی طرح نہیں بلکہ ہانڈی روٹی پکانے کیلئے۔ دودھ کو 'جمن ،جاگ یا، سمین لگانے کیلئے لسی بھی دوسرے گھر سے خواتین لے لیتیں۔ گائوں میں ایک آدھ سر پھرے، لڑاکے، ڈھیلے پیچوں والے، مست ملنگ چور یا نیم چور،پہلوان،حکیم نیم حکیم ،گویے اور دوچار ویہلوں کا ہونا بھی کلچر کا قدرتی حصہ ہے۔سوادِ اعظم قبرستان میں کم ازکم ایک دربار نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے گائوں میں سال میں دو میلے اور ایک عرس ہوا کرتا تھا۔برائے نام میلا تو اب بھی ہوتا ہے مگر اُس طرح کی رونق نہیں ہوتی۔ہاڑاور پوہ کے ابتدائی دنوں یعنی فصلیں گھر آنے پر میلے میں بھانڈوں ،نقلیوں کے ’’سٹیج شو‘ سے ہوا کرتے ۔اس پر آپ لاحول یا سبحان اللہ جو چاہیں کہہ لیں۔ عورتیں منتیں مانتیں اور' چورما' لے جا کے تقسیم کرتیں۔گرمیوں میں ہاڑ کی دس تاریخ کو عرس والد صاحب اپنے مرشد پیر نیازحسین شاہ کے سدھو پورہ فیصل آباد سے آنے پر کراتے۔ عرس پر قوالی ہوتی‘ مہرعلی‘ شیر علی خاندانی قوال کمالیہ سے آتے۔ گرمیوں کی راتوں کو بھی کھیس اوڑھ کر سوتے تھے۔ عرس کا سلسلہ پیر صاحب کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔ محفل سماع میں پیر صاحب کے ساتھ ان کے مُرشدخانے کے نوجوان پیر الطاف حسین بیٹھتے تھے۔ ان کا بڑے پیر صاحب سے اصرار ہوتا کہ عرس پر ’’عارفانہ کلام‘‘ اور دھمال کیلئے رقاصائیں بلائی جائیں۔ ایسی تجویز پر پیر نیازحسین صرف مسکرا دیتے تھے۔
آج دیہات کافی ماڈرن ہو چکے ہیں۔ زندگی میں جدتیں آ گئی ہیں۔ تاہم اب بھی کچھ روشن اور تاریک روایات موجود ہیں۔ لڑائیاں جھگڑے دشمنیاں شرارتیں مقدمات کینہ پروریاں تھانے کچہریاں تو ہر دور میں موجود رہیں۔ تاہم یگانگت و یکجہتی دیہی کلچر کی شان اور طرہ ہوا کرتا تھا اور آج بھی ان کی جھلک موجود ہے۔ دیہات میں جدت کی ضرورت کے ساتھ بہت زیادہ گنجائش بھی ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ سے روایتی فصلیں کاشت ہوتی آئی ہیں۔ گندم، چاول، گنااور کپاس کی عموماً کاشت ہوتی ہے۔ سبزیاں جو بھی علاقائی ہوں بوئی جاتی ہیں۔ تمباکو ، تِل ، السی ، لہسن،پیاز، سرسوں، چنے ، دالیں ضرورت اور اوپر کے خرچے پورے کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ کبھی گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار دس بارہ من ہوتی اب جدید ذرائع ، بیج ، کھادوں اور ادویات کے استعمال سے یہی پیداوار پچاس ساٹھ من تک ہو جاتی ہے۔ بھارت میں 80 سے 90 من ہے۔ ہمارے ہاں باغات لگانے کا رحجان کم کم ہے۔
پیپلز پارٹی کے آخری دور میں سی این جی سیکٹر نے بڑا عروج پایا۔ جس کا ایک پمپ تھا اس نے دس بنا لیے۔ اس سیکٹر کا زوال اسی دور میں سپریم کورٹ کی طرف نوٹس لینے ، قیمتیں کم کرنے سے شروع ہو گیا ، مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران سی این جی سیکٹر پستیوں کی گہرائی میں چلا گیا۔ اب اگر کہیں سی این جی پمپ ہے تولُٹی دِلّی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
آج شوگر سیکٹر اور حکومت کے مابین یدھ نظر آ رہا ہے۔ حکومت ناکام ٹھہری تو چینی ساشوں، پڑیوں میں فروخت ہوا کریگی۔ حکومت نے اس سیکٹر کے اجارہ داروں کی بڑی بے ضابطگیاں پکڑی ہیں۔ یہ لوگ حکومت کے خلاف بلاامتیاز وہ حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں یا غیر سیاسی ، سب یک جہت ہو گئے ہیں۔اگر حکومت کامیاب ہوتی ہے تو شوگر سیکٹر کی حالت بھی ماضی کی محصول چونگیوں ، جی ٹی ایس اور سی این جی سیکٹر جیسی ہو سکتی ہے۔ شوگر ملیں سی این جی سٹیشن ،کھراس، کنویں اور بیلنے کی طرح ہزار کوس پر کہیں نظر آیا کریں گی۔ شوگر ملز عوام کو سستی یا لاگت کے مطابق چینی دینے کو تیار نہیں۔ باہر سے سستی درآمد ہو سکتی ہے ،وہ بھی نہیں آنے دیتے ۔ چینی برآمدکر کے آج بھی نجی سیکٹر70 روپے میں فروخت کر سکتا ہے۔ عوام دوست ملز والے سو روپے کلو تک لے جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ کاشتکاروں نے گنے کی کاشت کم کر دی ہے۔ حکومت جہاں چینی کی درآمد کے لیے کوئی پالیسی لانا چاہتی ہے۔ اگر کاشتکاروں کو چینی خود بنانے کی حوصلہ افزائی کرے تو چینی کے بحران کا مستقل حل نکل سکتا ہے۔آج چینی 80نوے جبکہ گُڑ شکر ڈیڑھ سو روپے کلو ہے۔ گنے کی متبادل فصلوں کا کسانوں کو ابھی سے تعین کر لینا چاہئے۔
دو ماہ قبل گائوں گیا تو غیر روایتی طورپر ایک ہی جگہ بارہ ایکڑ مکئی کی فصل لہلہا رہی تھی ۔کسی 'ٹانڈے' کو دو کسی کو تین 'چھلیاں' یعنی بُھٹے لگے تھے۔ اگلی مرتبہ گیا تو نذر حسین نے بتایا کہ فی ایکڑ پیداوار 85 من نکلی، قیمت گندم کے تقریباً برابر ہے ۔گندم سے توڑی کی طرح چھلی کے گُل ایندھن اور گتا بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔ جبکہ اس کے ٹانڈے خشک چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس سے سائیلیج بھی تیار کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر مکئی کی فصل تین ماہ میں تیار ہو جاتی ہے۔لائیو سٹاک اور دودھ کے جانوروں کے منافع بخش کاروبار کی بھی بڑی گنجائش ہے۔ہمارے ہاں ایسے ایسے درخت اور فصلیں ہیں جن کے نام بھی ہم نے نہیں سنے، دیکھنا تو دور کی بات ہے۔دوستوں میں چاول کی بات ہورہی تھی توایک نے پوچھا یہ کس طرح کی جنس ہے کیسے پیدا ہوتی ہے۔زمین کے نیچے ہوتی ہے‘ اوپر یا درخت کو لگتی ہے۔ہمیں خود کئی اجناس کا علم نہیںکتنوں کو چونگ، چیکو کچنار،چلغوزے، ماڑو انجیر ، زیتون کے بارے معلوم ہے۔بہرحال سیاحت اور مطالعہ سے علم اور معلومات وسیع ہوتی ہیں۔
٭…٭…٭