قومی کرکٹ ٹیم دورہ انگلینڈ مکمل کرنے کے بعدویسٹ انڈیز پہنچ چکی تاہم انگلینڈ میں ون ڈے سریز میں وائیٹ واش اور ٹی ٹوئنٹی سریز میں 2-1سے شکست نے بابر اعظم الیون، پی سی بی سلیکشن کمیٹی، کوچز پر تنقید کے محاذ کھڑے کر دئیے ہیں۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ جیت پر بلے بلے اور ہار پر غصہ، تنقید۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو دورہ ویسٹ انڈیز کی صورت میں اپنی حالیہ ناکامیوں کے داغ دھونے کے لئے سنہری موقع ملا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف قومی ٹیم 5 ٹی ٹوئنٹی اور 2 ٹیسٹ میچز کھیلے گی ۔
ہر جیت پر ٹیم کے حوصلے بلند اور ہارنے پر طفل تسلیاں دینے والے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ ہارنے کے ساتھ سیریز میں شکست پر مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضوان کے ساتھ اگر کسی کی پارٹنرشپ اچھی لگتی تو مختلف رزلٹ ہوتا۔ ہمیںمعلوم ہے کہ ہم نے کیا غلطیاں کی ہیں، اس پر کام کرنا ہے۔ ایک کے بعد ایک وکٹیں گرتی ہیں جس سے پریشر آتا ہے۔ کسی کو کھلانے یا نہ کھلانے سے میچ نہیں ہارے بلکہ چھوٹی موٹی غلطیوں کی وجہ سے میچ ہارے‘‘۔حسب روایت اس عزم کا اظہار کیا کہ ٹیم آگے اچھے نتائج دے گی۔ ون ڈے سیریز میں ناقص کار کر دگی پر مایوسی کاظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تیسرے میچ میں بولنگ اور فیلڈنگ کی وجہ سے ہارے، بطور ٹیم ہم اچھا نہیں کھیل سکے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ٹیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ،’’ معیاری کھلاڑیوں کے بڑے پول میں سے 20 پلیئرز کا انتخاب کرنا مشکل ہوتا ہے،ہم نے کھلاڑیوں کی فٹنس اور کارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔ اس بار 8 نئے کھلاڑیوں کوکنٹریکٹ دیا گیا اور 9 سے واپس لیا،تاہم ان 9 کرکٹرز کے لیے دروازے کھلے ہیں اوریہ سلیکٹرزکے پلانز کا حصہ ہیں۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ملک کی نمائندگی کرنے والے تمام کھلاڑیوں کو اب یکساں میچ فیس ملے گی۔ سب سے پہلے ہم نے فٹنس کو مدنظر رکھا گیا،دوسرے نمبر پر کھلاڑیوں کی کاکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کوشش کررہے ہیں کہ دنیا بھرکے ملکوں کی طرح کھلاڑیوں کو اچھی تنخواہ دیں، اسی لیے ہم نے تنخواہوں میں 25فیصد تک اضافہ بھی کیا ہے‘‘۔
قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے قومی ٹیم کی جانب سے انگلینڈ کی ’’بی‘‘ ٹیم کیخلاف بدترین کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف پرفارمنس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا، تیسرے ون ڈے میچ میں فتح کا موقع ہاتھ آگیا تھا مگر ہدف کا دفاع نہیں کرسکے، سب سے بڑا مسئلہ فیلڈنگ کا رہا،یہ کارکردگی بطور ہیڈ کوچ میرے میرے لیے سخت تشویش کا باعث ہے، شکستوں کا صرف کھلاڑیوں یا کوچز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، یہ ٹیم کی ناکامی ہے۔ جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم اور اوے سیریز دونوں میں اچھا کھیلے اور درست سمت میں گامزن تھے، انگلینڈ میں حالیہ سیریز کے بعد اب لگ رہا ہے وہیں کھڑے ہیں، یہ کارکردگی بطور ہیڈ کوچ میرے میرے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر پلیئرز حکمت عملی کے مطابق پرفارم نہیں کرپاتے تو جتنے ذمہ دار وہ ہیں، اتنے کوچز بھی ہیں، سیریز میں بولرز بجھے بجھے نظر آئے، اگر انہوں نے پرفارم کیا تو بھی فیلڈرز نے ساتھ نہیں دیا۔ فیلڈرز کیچ چھوڑیں تو رنز روکنا مشکل ہوجاتا ہے، یہ تیسرے ون ڈے میں ایسا ہی ہوا، اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستانی کرکٹ شائقین تیسرے ایک روزہ میچ کی بھی ہار برداشت نہ کرسکے اور گو مصباح الحق گو، گو وقار یونس گو کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کے بعد پاکستانی مداح برمنگھم اسٹیڈیم کے باہر سراپا احتجاج ہوگئے۔ناراض شائقین کی جانب سے اسٹیڈیم کے باہر گو مصباح گوکے نعرے لگائے گئے جب کہ کئی شائقین اسٹیڈیم سے اٹھ کر چلے گئے۔اسٹیڈیم کے باہر موجود ایک مداح نے پاکستانی بولنگ، فیلڈنگ کو بے بیکار قرار دیا اور بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔اسکاٹ لینڈ سے میچ دیکھنے کے لیے برمنگھم آنے والے شائقین نے انگلینڈ کی بی ٹیم سے شکست کو کوچ مکی آرتھر اور انضمام کے کمبی نیشن کو خراب کرنے کا نتیجہ قرار دیا۔ایک مداح کا کہنا تھا کہ ملک کا وزیراعظم کرکٹر ہے اور کرکٹ کا حال سب نے دیکھ لیا ہے جنہوں نے ہماری قومی ٹیم کو وائٹ واش وہ انگلینڈ میں کائونٹی کھیلتے تھے۔اسٹیڈیم کے باہر موجود ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ مصباح کو کہیں ہماری ٹیم کی جان چھوڑدیں، زمبابوے چلے جائیں یاپھر کسی چھوٹی یا کلب لیول کی ٹیم کی کوچنگ کریں، بابراعظم بہت اچھا کھیلے لیکن ہمارے بولرز نے ہمارا نام مٹی میں ملادیا۔شائقین کا کہنا تھا کہ مصباح ، وقار ہمیں تنہا چھوڑ دو۔سوشل میڈیا پر بھی مداحوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایک مداح نے ٹویٹ کرتے کہا کہ کورونا وائرس دنیا کی دوسری ڈیڈ لائن ہے جبکہ وقاراور مصباح پہلی ہے۔پاکستان ٹیم کی شکست کے بعد کچھ مداح صدمے کے باعث اپنے الفاظ بیاں نہیں کر پا رہے تھے۔
محمد عامر انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں شاہین شاہ آفریدی کی غیر معیاری پرفارمنس پر ان کی حمایت میں سامنے آگئے۔سوشل میڈیا پر محمد عامر نے شاہین شاہ آفریدی کی حمایت میں کہا کہ شاہین بہت زبردست بولر ہے اور میرے نزدیک وہ اس وقت پاکستان کا بہترین بولر بھی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے۔ پہلے کی طرح تم دوبارہ زبردست کم بیک کر یں گے۔ وہ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دیں جو دل دکھانے کی بات کرتے ہیں۔سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے قومی ٹیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہپاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں پہلوان زیادہ پلیئرز کم ہیں۔ پی ایس ایل میں پرفارم کرنے والوں کو منتخب کر لیا گیا ہے، ٹیم کا کمبی نیشن کیا بنے گا ؟ ایک ایک پوزیشن کے 4 پلیئرز منتخب کیے گئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا برا حال ہو چکا ، بورڈکو نہ احساس ہو رہا ہے اور نہ اس کی آنکھیں کھل رہی ہیں، ٹیم ہارے گی تو سوال کوچز سے ہو گا اور تنقید بھی انہی پر ہوگی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ مینجمنٹ نے 2 برس قبل ایک چلتے ہوئے سسٹم کو روکا جس طریقہ کو روکا گیا تھا اس کے نتائج اب سب کے سامنے ہیں، آج قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی اسی کی وجہ سے ہے ۔ گراس روٹ پر کام نہیں ہو رہا ، اکیڈمیز لگانے کا رحجان ختم ہو گیا ، پہلے تین تین ماہ کی اکیڈمیز مختلف شہروں میں لگا کرتی تھیں ، ان میں سے پلئیرز سامنے آتے تھے مگر اب وہ سلسلہ روک دیا گیا ہے ۔ دنیا ماڈرن ڈے کرکٹ کھیل رہی ہے، ہم نوے کی دہائی والی کرکٹ کھیل رہے ہیں جو ہم کھیلا کرتے تھے جب کوئی ٹیم 250 رنز کر جاتی تھی ہم سمجھتے تھے کہ ہم تو اب ہار گئے ۔ان کاکہنا تھا کہ انگلینڈ کی وائٹ بال کرکٹ چند برس پہلے خراب تھی ، انگلینڈ نے اپنے لیے ایک پلئینگ زون مقرر کیا ، آوٹ کے ڈر کے بغیر اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر بنانے والی کرکٹ کھیلی ، یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اسٹرائیک ریٹ چھکے مارنے سے نہیں تیکنیکی شاٹس سے بھی آتا ہے۔بڑا کہا جاتا تھا کہ فٹنس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا کہاں گیا وہ سمجھوتہ ؟ شرجیل خان اور اعظم خان جیسی جسامت والے ٹیم میں آسکتے ہیں تو اس سے فٹنس معیار کا اندازہ لگا لیں ، ہم آگے جانے کی بجائے اس معاملے میں 60 کی دہائی میں چلے گئے ہیں ۔ حارث روف پرانے بال سے بولنگ اچھی کرتا ہے اس کے ڈیتھ اوورز اچھے تھے لیکن آپ نے ٹیسٹ کھلانے کے چکر میں اس سے نئے گیند سے بولنگ کرانا شروع کر دی ، پہلے اسے ٹی ٹوئنٹی میں تو پکا ہونے دیں۔ ٹیسٹ بعد میں کھلا لیں ، اس سے حارث کی کارکردگی اوپر جانے کی بجائے نیچے جا رہی ہے ۔شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کو اسپورٹ نہیں مل رہی ۔
سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اوسط فیصلے کرنے والے اوسطا لوگ پاکستان کرکٹ کے زوال کی اصل وجہ ہیں۔ جب تک آپ اوسط افراد کی طرح سوچتے رہتے ہیں تو صرف اوسط فیصلے لے سکتے ہیں اور اوسط پرفارمنس دے سکتے ہیں۔پاکستان کرکٹ کی صورتحال سنگین ہے، اس کی حالت خراب ہے۔ اس میں پی سی بی ، مینجمنٹ اور قومی ٹیم شامل ہے، یہ ایک بہت ہی مایوس کن صورتحال ہے۔سابق قومی کپتان راشد لطیف نے مکی آرتھر اور سرفراز احمد کی برطرفی کو بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈز اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ قومی ٹیم ان کی وجہ سے بہترین کھیل پیش کر رہی تھی اور یہ ہیڈ کوچ کے علاوہ کپتان کی مشترکہ کاوش تھی کہ دو ہزار سترہ میں پاکستانی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ پی سی بی بورڈ نے دونوں کو عہدوں سے ہٹا کر بڑی غلطی کی تھی جبکہ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکی آرتھر کو کیوں ہٹایا گیا اور ان کی برطرفی کی وجہ کیا تھی کیونکہ ان کی نگرانی میں قومی ٹیم کامیابی کی منازل طے کر رہی تھی مگر انہیں سیاست کے تحت برطرف کردیا گیا۔ یہ بات بھی سمجھ نہیں آسکی کہ سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے کیوں ہٹایا گیا جو عمدگی سے ٹیم کو فتوحات دلا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مصباح الحق کو الزام نہیں دیں گے جو ہیڈ کوچ بننا ہی نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کا ذمہ دار صرف پاکستان کرکٹ بورڈ ہے۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہاہے کہ مشکل وقت میں کھلاڑیوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے،کچھ کھلاڑی کافی وقت سے پرفارم کر رہے ہیں،یہ ہمارے شاندار کھلاڑی ہیں،ہمیں اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی قومی ٹیم بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ان کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ کھلاڑیوں نے حا ل میں اپنی پرفارمنس سے ثابت بھی کیا ہے۔تاہم ان میں کچھ کھلاڑی کافی وقت سے پرفارم کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانا ہو گا اور مشکل وقت میں ایک کرکٹ فین کے طور پر اور سابق کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے اپنے کھلاڑیوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ میدان میں لڑ کر ہارنے والی ٹیم کوقبول کرنا چاہیئے۔ شاداب خان کا کہنا ہے کہ کارکردگی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اچھا نہیں کرسکتے، ایک یا دو میچز کی کارکردگی پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، کارکردگی پر کی جانے والی تنقید کو ہم مثبت انداز میں لیتے ہیں۔آل راؤنڈر نے اعتراف کیا کہ باؤلنگ اچھی نہیں ہورہی۔ بین الاقوامی کرکٹ میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، ماضی میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کریں گے پاکستان کا دورہ انگلینڈ اگرچہ تنقید کی زد میں ہے تاہم پاکستان نے پہلا ٹی ٹوئنٹی جیت کر بھی مبصرین کو حیران کیا اور کچھ خوشگوار لمحات بھی آئے جن کا تذکرہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ گرین شرٹس کی کایا پلٹ پر سابق انگلش کپتان مائیکل وان بھی حیران رہ گئے۔میزبان بی ٹیم کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کی خفت سے دوچار ہونے والی پاکستان ٹیم نے پہلے ٹی 20 میں شاندار کم بیک کرتے ہوئے31 رنز سے کامیابی حاصل کی ۔ اس سے مائیکل وان اور ویسٹ انڈیز کے سابق اسٹار ای ین بشپ بھی کافی متاثر دکھائی دیے۔وان نے ٹویٹ کیا کہ
پاکستان ایک ناقابل پیشگوئی بہترین ٹیم ہے، ایک ہفتے کے اندر وہ کسی ولیج ٹیم سے فاتح عالم سائیڈ میں تبدیل ہوگئی، اسی لیے مجھے انھیں ایکشن میں دیکھنا پسند ہے۔ای ین بشپ نے کہا کہ پاکستان کو مبارکباد،میچ دیکھ کر بہت لطف آیا،کراوڈ کا ردعمل بھی زبردست تھا۔ شائقین نے بھی دل کھول کر گرین شرٹس کو سراہا۔فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹی 20 میچ میں کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ برا وقت ختم ہوگیا اب ہم انگلینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز جیتنے کی کوشش کریں گے۔ ون ڈے سیریز ہارنے پر باتیں تو ہوتی ہیں اور جیت پر لوگ تعریف بھی کرتے ہیں، میرے نزدیک جب کارکردگی خراب ہوتو اس وقت بھی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیت سے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جیت کیلئے ہمیشہ بطور ٹیم پرفارم کرنا ہو تا ہے ۔کپتان بابراعظم آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں۔انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میں کامیاب پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ شروع میں ہر اوور میں دس یا آٹھ رنز بنانے کی حکمت عملی پر کاربند تھے، سیریز جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ایسا نہ کر سکے ۔قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان آئی سی سی ٹی 20 رینکنگ میں ترقی پاتے ہوئے ٹاپ ٹین بلے بازوں میں شامل ہو گئے۔ تازہ ترین رینکنگ میں محمد رضوان ترقی پاتے ہوئے ساتویں نمبر پر آ گئے ہیں ،قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی دوسری پوزیشن برقرار ہے۔
مڈل آرڈر بیٹسمین اعظم خان نے انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ سے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کردیا، یوں معین خان اور اعظم خان ، پاکستان کی نمائندگی کرنیوالے باپ بیٹوں کی پانچویں جوڑی بن گئی ہے،اس سے قبل نذر محمد اور ان کے بیٹے مدثر نذر، ماجد خان اور ان کے بیٹے بازید خان بھی پاکستان کیلئے کھیل چکے ہیں۔حنیف محمد اور ان کے صاحبزادے شعیب محمد نے بھی پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ لیجنڈری اسپنر عبدالقادر کے بیٹے عثمان قادر بھی پاکستانی اسکواڈ کا حصہ رہے۔اس مو قع پر اعظم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے پہلی مرتبہ میدان میں اترنا ہمیشہ یادگار رہے گا۔نوجوان بیٹسمین کا کہنا تھا کہ میں بہت خوش ہوں اور مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں اتروں گا اس کے علاوہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کروں گا۔