سب کچھ سیاست کی نذر، آخر کب تک؟؟؟؟

آپ اخبار پڑھیں، ٹی وی دیکھیں، سوشل میڈیا دیکھیں، بیرون ملک بیٹھے پاکستانیوں کے تاثرات پر نظر دوڑائیں، پاکستان میں بسنے والے کروڑوں افراد کو دیکھیں اور آپ اس عظیم سرزمین کو جو لا الہ الا اللہ کے نام پر معرض وجود میں آئی اور اس سرزمین کو جس کی بنیادوں میں انسانوں کا خون ہے جس کی بنیادوں میں پامال ہونے والی عزتیں ہیں جس کی بنیادوں میں ننھے معصوم بچّوں کے لاشے ہیں، اس سرزمین کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانان برصغیر نے ایسی قربانیاں دیں کہ تاریخ آج بھی اس جذبہ کی مثال دیتے ہوئے نظر آتی ہے لیکن کیا ہم، میں اور آپ، ہم سے پہلے آنے والے اس کی وضاحت دے سکتے ہیں ہیں یہ ذمہ داری لے سکتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکے۔ ہمارا تعلق ایسے لوگوں سے نہیں جو ہار مان جائیں ہمارا تعلق ایسے لوگوں سے نہیں جو ناکامی سے گھبراتے ہیں، ہمارا تعلق اس قبیلے سے ہے جن کے آباؤ اجداد نے گوروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، وہ جو دنیا پر حکومت کرتے تھے ان سے آزادی حاصل کی، تاریخ بتاتی ہے کہ ہم ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں، ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم ہار ماننے والوں میں سے نہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ ہم فتح حاصل کرتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں، میدان چھوڑ کر بھاگا نہیں کرتے، تاریخ بتاتی ہے کہ ہم مشکلات سے گھبراتے نہیں، ڈرتے نہیں، ہم مقابلہ کرتے ہیں آخری سانس تک لڑتے ہیں لیکن میرے پاکستانیوں  مملکت خداداد کو جن حالات کا سامنا ہے جن مسائل سے ہم گذر رہے ہیں ان سے باہر کیسے نکلا جائے گا۔ آج کیوں ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں آج کیوں غیر ہمارے فیصلے کر رہے ہیں آج کیوں ہمیں لوگوں کے آگے جھولی پھیلانا پڑتی ہے آج کیوں ہم قرض پر چل رہے ہیں۔ ہم کیوں برادر اسلامی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے 
رحم و کرم پر پڑے ہوئے ہیں کیوں کہ ہم اپنے وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیوں ہم سورج کی روشنی کو ضائع کرتے ہیں، بارش کے پانی کو ضائع کرتے ہیں ہر قدرتی ذریعہ جس سے ہم خود مختار ہو سکتے ہیں کیوں ضائع کرتے ہیں۔ ہم آج تک بارشوں کے پانی کو سنبھالنے کا بندوبست نہیں کر سکے۔  اس بدانتظامی میں ایک عام پاکستانی کا کیا قصور ہے۔ اس پاکستانی کا جو وطن سے محبت کرتا ہے۔ ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے اس کا کیا قصور ہے وہ پاکستانی جو ہر مہینے بجلی کا بل بھی دیتا ہے گیس کا بل بھی ادا کرتا ہے، پانی کا بل بھی دیتا ہے سفری اخراجات بھی برداشت کرتا ہے اور جو ٹیکس اس پر لگتے ہیں وہ بھی ادا کرتا ہے اس کا کیا قصور ہے کہ بل دینے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔
 میرے پاکستانیوں وہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کے اداروں کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھے جا رہے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے کاروبار کامیابی سے چلاتے ہیں وہ کون لوگ ہیں جن کی اپنی فیکٹریاں کارخانے تو کامیاب ہوتے ہیں لیکن قومی اداروں کو بیچنے، گروی رکھنے اور خودمختاری ختم کرنے کے لئے وہ غیر ملکیوں کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں جو خود اپنی کمپنیوں کو با اختیار خود مختار بنانا چاہتے ہیں لیکن قومی اداروں کو عالمی اداروں کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتے ہیں، گروی رکھنا چاہتے ہیں یا پھر سب سے کم تر منافع بخش قومی اداروں کے فیصلوں کا اختیار پاکستان کے پاس نہیں رہنے دینا چاہتے۔ آج تاریخ کے اس بدترین دور سے گذر رہے ہیں ہیں جہاں پر ہمیں صرف ہر طرف قرض ہی نظر آتا ہے، پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو فراموش کر دیا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے حکمرانی کرنے والے حلف سے وفاداری نہیں کرتے، پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک کا دشمن ہمارے اندر بھی موجود ہے اور بیرونی دشمن بھی متحرک ہیں۔ بدقسمتی سے پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا کہ ہمیں مشکل حالات کا سامنا  ہے۔ بہت کم وقت گذرتا ہے اور یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گذر رہا ہے۔ پاکستان کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری خطرے میں ہے۔ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے۔
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف وقتوں میں حکمرانی کرنے والوں نے نازک دور سے نکلنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی، مشکلات کے خاتمے کے لیے کون سے منصوبے تیار کیے۔ معاشی خودمختاری کے لیے حکمرانوں نے کیا فیصلے کیے۔ قومی اداروں کو خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے۔ آج دیکھیں جو ملک کو چلا رہے ہیں اور جو ان سے پہلے ملک کو چلا رہے تھے ان سب کی منزل صرف اور صرف اقتدار ہے۔  ان کے لیے اگر ملک کا مستقبل اہم ہوتا تو یہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے اتحاد اتفاق مظاہرہ کرتے،  توجہ اور یکسوئی کے ساتھ کام کرتے،  ملکی مفاد کے پیش نظر ذاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرتے۔ یہ باصلاحیت افراد کی کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ اپنی زبان بند رکھ کر دماغ چلانے پر توجہ دیتے تو ملک کی معیشت ملک کی سیاست اور قومی اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے راستے نکلتے لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا سب نے اپنے اپنے کاروبار بڑھانے کے لیے قومی اداروں کو کمزور کیا۔ وہ فیصلے کیے کہ پرائیویٹ کاروبار چل سکے، سرکاری اداروں کی کارکردگی کو خراب کیا تاکہ ان کے اپنے بزنس کو فروغ ملے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں کیا ہم ایسے ہی قرضوں کی امید پر سانسیں لیتے رہیں گے یا ایک دفعہ پھر ہمیں میرے عزیز ہم وطنو سننا پڑے گا۔ پاکستان کا ہر محب وطن شہری ملک کے بہتر مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے کرداروں کی کمی نہیں ہے جن کا اوڑھنا بچھونا جن کی ہر سانس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان خود کو ناکام ثابت کرچکے ہیں۔ اب فیصلہ صرف یہ کرنا ہے کہ اس ناکام نظام اور ناکام افراد کے ساتھ کب تک چلنا ہے۔ کب تک قومی اداروں کو خسارے میں رکھنا ہے کب تک غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے ہیں۔  اب تو صرف یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔ آج ہم اس فیصلہ کن موڑ پر سخت دلیرانہ فیصلہ نہیں کرتے تو پھر آنے والی نسلوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ جب کہ ہم سب کچھ پہلے ہی سیاست کی نذر کر چکے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن