نون لیگ کی شکست،حقائق کے تناظر میں

 ضمنی الیکشن کا انعقاد ہو چکا ، تحریک انصاف نے پندرہ اور مسلم لیگ ن نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔مسلم لیگ ن جس کا بیس کیمپ صرف پنجاب تک محدود ہوچکا ہے ،اتنی بڑی شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا ۔یہ سوال ہر مسلم لیگی کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے ۔ میری نظر میں ن لیگ کی شکست کے ذمہ دار چند عوامل ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والے ن لیگ کے اپنے امیدوار نہیں تھے ، 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر کامیاب ہوکر وہ لوگ پنجاب اسمبلی میں پہنچے ۔ بعد  میںانہوں نے تحریک انصاف سے بغاوت کرکے ن لیگ کو سپورٹ کیا اور انہی کی سپورٹ کی وجہ سے حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب منتخب ہوئے ۔جنہیں تحریک انصاف کے گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ پہلے بات لاہور ہائی کورٹ بعد میں سپریم کورٹ جا پہنچی۔ پھر وہاں پر یہ طے پایا کہ 17 جولائی کو ہونے والے الیکشن کے بعد پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلی کا دوبارہ انتخاب ہو گا ۔جہاں تک مریم نواز کی الیکشن کمپیئن کا تعلق ہے انہوں نے اپنی صوبداید کے مطابق ہر حلقے میں پہنچ کر بہترین سپورٹ فراہم کی لیکن جو شخص ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں جاتا ہے اسے عرف عام میں" لوٹا" ہی کہا جاتا ہے۔ جس امیدوار پر لوٹے کا لیبل لگ چکا ہو اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔بالخصوص عمران خان جیسے شعلہ بیان مقرر مقابلے پر ہوں تو کامیابی دور دور تک دکھا ئی نہیں دیتی ۔ ناکامی کی دوسری وجہ ایسا بیانیہ تھا جسے آئی ایس پی آر اور سپریم کورٹ بھی رد کرچکی ہے لیکن عمران خان نے اپنے ہر جلسے میں سائفر کو ہی موضوع گفتگو بناتے ہوئے عوام سے پوچھا تم آزادی چاہتے ہو یا امریکہ کی غلامی ۔ آزادی یا غلامی کے الفاظ تحریک انصاف کے تمام امیدواروں کے پوسٹروں اور بینروں بھی لکھے گئے، کسی کا دماغ ہی خراب ہوگا کہ وہ آزادی کو چھوڑ کرغلامی کا انتخاب کرے گا ،اس لیے تحریک انصاف کے پندرہ امیدوار آسانی سے جیت گئے اور ن لیگ کو چار سیٹیں ملیں ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں لیڈر زیادہ ہیں کارکن ختم ہو چکے ہیں ، مسلم لیگ ن کے قائدین کو شاید کارکنوں کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔ پورے پاکستان میں جو پرائمری یونٹ نواز شریف کے دور میں ہوا کرتے تھے، وہ بھی قصہ پارینہ ہوچکے ہیں۔ن لیگ کو کارکنوں کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی حلقے میں الیکشن ہورہے ہوتے ہیں ۔ ایک  ن لیگی بزرگ سے  چند دن پہلے میری ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا میں زندگی بھر نواز شریف کی پارٹی کو ووٹ دیتا اور مخالفین سے لڑائیاں بھی لڑتا رہا ہوں لیکن زندگی میں مجھے دو جائز کام پڑے، ایک خواجہ احمد حسان سے اور دوسرا کام خواجہ سعد رفیق سے ۔ دونوں نے میرے جائز کام بھی نہیں کیے۔ مجھے نواز شریف سے محبت ہے اس لیے امیدوارکی شکل دیکھے بغیر انہیں ووٹ دیتا چلا آ رہا ہوں ۔مسلم لیگ ن کا وزیر ہو یا ایم این اے یا ایم پی اے ، ووٹ لینے کے بعد عوام سے اس لیے دور بھاگتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں کام نہ کہہ دے۔نواز شریف دور میں ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر کارکنوں کے جو کنونشن ہوا کرتے تھے ،وہ بھی ختم ہوچکے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی ملک گیر سطح پر تمام تنظیمیں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں ، بلوچستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا اور گلگت میں شاید کو ئی ایک آدھ آدمی ہی دکھائی دے سکتا ہے، باقی سب ختم ۔ ن لیگ کی چاروں صوبوں پر مشتمل نہ سنٹرل کمیٹی ہے نہ کور کمیٹی ۔ن لیگ کا صدر شہباز شریف لاہور سے، سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی مری سے ، نائب صدر مریم نواز لاہور سے، مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال ناروال سے ہیں۔ بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختون خوا اور گلگت کو تو چھوڑ ہی دیں جنوبی پنجاب سے کوئی نمائندہ مرکزی قیادت میں شامل نہیں ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کی سیاست صرف چند افراد اور سنٹرل پنجاب کے چند شہروں تک محدود ہوکر رہ چکی ہے۔بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ن لیگ نے حصہ نہیں لیا۔ سند ھ میں بلدیاتی الیکشن کے ایک مرحلہ کا انعقاد ہو چکا ہے، ن لیگ نے وہاں بھی اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے۔ کراچی میں سب جماعتیں الیکشن میں اپنے نمائندے کھڑے کرتی ہیں، ن لیگ وہاں بھی اپنا نمائندہ کھڑا کر گناہ سمجھتی ہے ۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں وہاں بھی الیکشن سے پہلے یا بعد میں کسی ن لیگی قائدین نے جانا اور اپنے امیدوار کھڑے کرنیکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔مریم نواز بھی ضمنی الیکشن کے علاقوں میں اس وقت گئیں، جب وہاں الیکشن ہونے والے تھے۔ جبکہ عمران خان نے حکومت سے  نکلتے ہی نہ صرف پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں جلسے کیے بلکہ خیبر پختون خوا اور کراچی میں جلسے کرکے عوام کو اپنا پیغام پہنچایا ۔

ای پیپر دی نیشن