بدترین توانائی بحران۔۔۔۔کالا باغ ڈیم

ایس ایم تقویم
 کم و بیش ایک دھائی قبل یہ بھارتی عزائم منظر عام پر آنے لگے تھے کہ 2020تک بھارت پاکستان کے در یا خشک کرنیکا منصوبہ بنا چکا ہے جسکے بعد سے بھارت تسلسل کیساتھ اس آبی جنگ کو آگے بڑھاتا نظر آرہا ہے۔سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئر مین اورعالمی پانی اسمبلی کے چیف کو آرڈینٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان کیخلاف بھارتی آبی جارحیت خطر ناک مرحلہ میںدا خل ہو چکی ہے۔دیگر عالمی ماہر ین بھی بھارت کے ان عزائم سے ایک عرصہ سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے نہ ایسے اقدامات کبھی ہو تے ہوئے دکھائی دئے۔
پاکستان میں توانائی بحران تاریخ کی بدترین سطح پر ہے اور قیام پاکستان کو75 برس ہونے کو ہیں ہم سستی اور وافر بجلی کیلئے  اب تک صر ف باتیں کر رہے ہیں۔اپنے ہاں آبی ذرائع کو استعمال میں نہیں لا سکے۔  1960کی دہائی میں پاک بھارت سندھ طاس معاہدہ کے تحت طے پایا تھا کہ بھارت در یائے چنا ب میںہر لمحہ55 ہزار کیو سک پانی چھوڑنے کا پابند ہو گامگر اس کے بر عکس بھارت نے مقبو ضہ جموں کشمیراور ہماچل پر دیش میں ڈیم تعمیر کر کے ان کے لیول کو اپ کرنے کیلئے کئی بر سوں سے در یائے چناب کا پانی رو ک رکھا ہے ۔گزشتہ سال ہیڈ مرالہ کے مقام پر چناب میں 55ہزار کے بجائے 47ہزار258کیوسک پانی کی آمد و رفت ریکار ڈ کی گئی ۔محکمہ اریگیشن کے مطابق مقبو ضہ کشمیرسے آکر دریائے چناب میں شامل ہو نیوالے دو دریائوں دریائے مناور تو ی کے 3ہزار46 کیو سک پانی اور در یائے جموں توی کے5ہزار 564کیوسک پانی کی وجہ سے چناب کے مجموعی پانی کی آمد55ہزار868کیو سک رہی جس کا اثر نہر اپر چناب کے پانی کے بہائو پر بھی پڑا۔نو مبر2020ء کے ریکارڈ کے  مطابق مقبوضہ کشمیر کے بگلیہار ڈیم پر 42سال پرانے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ور زی سے  ہیڈ مرالہ کے مقام پر چناب کے پانی کی آمد صرف 5ہزار 719کیو سک رہ گئی۔در یائے چناب سے نکلنے والی نہر مرالہ راوی لنک بھی خشک ہو گئی ہے۔جس کی وجہ سے سیالکوٹ،پسرور ،نارووال ،سمڑیال،ڈسکہ ،گوجرانوالہ او ر دیگر اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی پر کاشت شدہ فصل کو کسان اور کاشتکار ٹیو ب ویل کا پانی لگانے پر مجبور ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت سیلاب کے دنوں میں بھی پاکستان کیساتھ شر انگیزی کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے اس بات کی کئی بار تصدیق کی ہے کہ  درخواستوں کے باو جود بھارت سیلاب کی پیشگی اطلاعات فراہم نہیں کرتا ،حا لانکہ 1989 کے معاہدہ کے تحت بھارت یکم جولائی سے 10اکتوبر تک سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کا پا بندہے۔انھوںنے بتایاکہ 2014کے بعد سے بھارت نے پاکستان کو گنگا پر اجیکٹ کے معا ئنے کی اجازت نہیں دی۔جب پاکستان کو بھارت جا کر دریائے چناب پر بنا ئے گئے متنازعہ ڈیمز کا معائنہ کرنا تھا عین وقت پر معائنہ کرانے سے انکار کر دیا گیا۔ جس سے  بھارت کی بد نیتی ظاہر ہو تی ہے۔ در اصل بھارت نے طا قت کے بل پر پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے باز ر کھنے اور روا یتی میدان جنگ میں شکست دینے میں ناکامی کے بعد اب لڑائی کیلئے آبی میدان کا انتخاب کیا ہے۔اس بھارتی آبی جنگ کے باعث پاکستانی دریا ندی نالوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ 
ملک بھر میں ڈیم بنانے کی بات اب زباں زد عام ہے ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان، ثاقب نثار اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات واضح الفاظ میں کی تھی کہ اب ڈیم تو بنیں گے ۔بات تو انھوںنے کالا باغ ڈیم کی بھی کی مگر سر دست فنڈ صرف دیامر بھاشا ڈیم کیلئے بنا یا گیا اور پوری قو م سے اپیل کی گئی کہ ہر شہری اس فنڈ میں اپنی بساط کے مطابق عطیہ دے۔کچھ بھی ہو اصل مسئلہ تو کالا باغ ڈیم ہے ۔جس کی مصلحتا  انہوں نے کوشش نہیں کی تھی ۔
اب ہم 2022  کے وسط کو بھی عبور کر چکے ہیںہے اور لو ڈ شیڈنگ کسی نہ کسی شکل میں  جاری رہتی ہے اور اس کیلئے یقینی طور پر موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ سابقہ حکو متیں اور حکمران  بھی ذمہ دار ہیں۔سابق حکومت نے اپنے آخری دنوں میں عوام کو مطمئن کرنے کیلئے فرنس آئل اور ڈیزل وغیرہ سے فوری مگر لاگت کے اعتبار سے انتہائی مہنگی بجلی پیدا کی ۔بجلی کی کمی کا مسئلہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے سے نہیں بلکہ واقعتا منصوبہ بندی کے تحت ڈیم بنانے ا ور بجلی کے ایسے نئے منصو بے شرو ع کرنے سے حل ہو گا کہ جن سے حقیقی معنوں میں بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو ۔پن بجلی سستی اور فور ی پیداوار کا بہترین حل ہے مگر اس جانب حکومت کی کوئی تو جہ نہیں ہے۔ایندھن سے بجلی پیداکرنااتنا مہنگا منصو بہ ہے کہ اس بجلی کے اخراجات کو برداشت کرنا نا صر ف ایک عام شہری کے بس کی بات نہ ہو گی بلکہ صنعتی سطح پر بھی یہ نا قابل برداشت ہو گی۔ اس سے انڈسٹر ی چلے گی اور نہ غریب آدمی بل ا دا کر سکے گا بلکہ بجلی گھر بھی ٹھپ ہو کر رہ جائینگے۔ایسی صو رتحال میں صر ف پن بجلی قابل عمل ہے ۔کئی دہائیوں سے قو م کی تقدیر میںاندھیرے ہی اندھیرے چلے آرہے ہیں۔جس کا خاتمہ صر ف آبی ذرائع بروئے کار لانے سے ہی ممکن ہے۔
وطن عزیز کئی دہائیوں سے سیاسی بحرانوں کی زد میں رہتا ہے ۔ اس ایشو پر اتفاق رائے پیدا کرنیکی کوشش کی جائے تو کون سی قیا مت ٹو ٹ پڑے گی بلکہ یہ ہو سکتا ہے اس کے نتیجہ میں معا ملہ کسی بہتر ی کی جانب جا نکلے۔کا لا باغ ڈیم کیلئے پیپلز پارٹی کی کاو شیں بھی سب کے سامنے ہیں ۔کالا باغ ڈیم کیلئے سب سے زیادہ کام ذوا لفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا ۔ فز بلٹی رپورٹ ،ار ضی سر وے ،ذرائع موا صلات دفاتر ،رہائشی مکانات اور سڑکو ں پر کام جاری ر ہا ۔پھر اس  ڈیم کے مخالفین کی طرف سے اٹھائے جاینوالے تمام اعتراضات  سے یہ معاملہ دب کر رہ گیا۔نو شہر ہ  کے نچلے لیول پر واقع ہونے کی بات کی گئی۔حالانکہ نو شہر ہ کا کم سے کم لیول سطح سمندر سے 972فٹ ہے۔ جبکہ کا لا باغ ڈیم جھیل کا ڈیزائن شدہ فل سپلائی لیول915فٹ ہے۔
ملک میں1991میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے نیا اور تا ریخی معاہدہ تک طے پا چکا ہے اور اس حوالے سے ہونیوالے مذاکرات میں چارو ں صوبوں کے وزراء ا علیــ کی قیادت میں وفود نے حصہ لیا ا ور کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر مکمل طور پر اتفاق کیا اس کے باوجو د تین صو بو ںکے تحفظات کو بنیاد بنا کر خوا مخواہ ایک گو مگو او ر بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنیکی کو شش کی جاتی رہی ہے۔اس معاہدہ میں صر ف ایک قبا حت یہ تھی کہ اس میں پنجاب کے پانی کا بہت زیا دہ حصہ دو سر ے صو بو ں خصو صاسندھ کو دیا جا نا تھا اس لئے وقتی طو ر پر اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر صو رتحال کی نزاکت بھا نپتے ہوئے پنجاب کے وفد میں شامل سر دار ذو الفقار کھوسہ ا ور ان کے د یگر ساتھیوں نے انھیں یہ گھاٹے کا سودا کرنے کیلئے یہ کہہ کر آمادہ کر لیا کہ جب کا لا باغ ڈیم بن گیا تو پھر کس پانی کی کمی ہو گی ا ور تب انھوں نے اس پر دستخظ کر دئے۔یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے کہ اب گذشتہ 24سال سے اسی معاہدہ کے مطابق ہی پانی کی تقسیم جاری ہے۔پر ویز مشرف نے اپنے دور میں کا لا با غ ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا مگر ایم کیو ایم کے سر براہ الطاف حسین نے اس کی اتنی شدید مخالفت کی کہ پر ویز مشرف کواپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی پڑی اور آخر یہ منصوبہ شرو ع ہو نے سے پہلے ہی ختم ہو گیا ورنہ پر ویز مشرف سے بہتر اس ڈیم کو کوئی تعمیر نہ کر سکتا تھا۔ 
 شمس الملک انتہائی محب وطن شخصیت ہیں اور ان کو کا لا باغ ڈیم کے بانیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور ان کا خیا ل ہے کہ ہمیں کا لا باغ ڈیم 1996میں تعمیر کر لینا چاہئے تھا ،مگر ایسا نہ ہو سکا۔جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ بھار ت ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے اور ہم باتو ں پر باتیں بنائے جا رہے ہیں ۔تازہ تر ین صو رتحال یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو بنجر زمین بنانے کی ایک نئی ساز ش تیار کر لی ہے جس کے تحت وزیر اعظم نر یندر مو دی نے چناب کا رخ مو ڑ کر اس کا پانی در یائے بیاس میں ڈالنے کا حکم دیدیا ہے۔بھارت میںدر یائے چناب پر ایک متنا زعہ ڈیم جسپا کی ہنگامی بنیادوں پر تعمیر جاری ہے حالانکہ یہ ڈیم زلزلوں کے حوالے سے انتہائی خطر ناک فالٹ لائن پر آتا ہے۔اس حوالے سے گور نر ہیما چل پردیش نے  بھارتی حکومت کو خبر دار بھی کیا تھا مگر پاکستان دشمنی میں اندھی بھارتی حکومت نے اس وارننگ تک کو نظر انداز کر دیا ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں آئندہ بر سو ں میں پانی کی شدید قلت کے خدشا ت ظا ہر کئے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک رپور ٹ کے مطابق پاکستان ان 36مما لک میں شامل ہے جہاں پانی کی کمی ا ور زیر زمین پانی کی سطح میں کمی واقع ہو رہی ہے اس کے با وجود حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی پیش بندی نہیں کی جا رہی۔ا س رپو رٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2015تک پاکستان میں پانی کے استعمال میں 31فیصد اضافہ ہو جائیگا۔دو سر ی طر ف ہر برس سیلاب کی صور ت میں پانی بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے اور در یائے سندھ کی نذر ہو جا تا ہے۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی اور بجلی کی فراہمی ہے۔
 جنرل ضیاء الحق کے دور میںشام کے اوقات میں  معمولی دور انیہ کیساتھ شرو ع ہونیوالی لو ڈ شیڈنگ آج ہماری زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے  بعد میں اس کا دور ا نیہ 12گھنٹے  تک بھی رہاہے ۔ضیاء دور میں ہونیوالی اس انتہائی کم دور انیہ کی لو ڈ شیڈنگ سے ہی لو گ اتنے تنگ تھے کہ اس وقت ہی کالاباغ ڈیم کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں ا ور اگر اس وقت بھی یہ بن گیا ہو تا توآج ملکی تر قی کا گراف کہیں بہتر ہو تا۔مگر بد قسمتی سے جنرل  ضیاء الحق کے  اپنے گورنر صوبہ سرحد جنرل فضل حق نے بھی اس ڈیم کی تعمیر سے نو شہرہ شہر کے ڈو بنے کے خدشہ پر اس کی مخالفت کر دی تھی۔ آج کا لا باغ نہیں ہے تو بھی ہمار ے دریائوں کے پانی کاایک بڑا حصہ سمندر میں ہی جا کر گرتا ہے۔ ایک حوصلہ افزابات تھی وہ بھی اب ختم ہو گئی ہے وہ یہ کہ ایک عرصہ تک بجٹ میں کا لا باغ ڈیم کے منصوبہ کے حوالے سے ذکر ملتا رہتا تھا اب تو وہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ البتہ مسلم لیگ کے سابقہ دور حکومت میں دریائے سندھ پر ہی دیا میر بھاشا ڈیم سے 4600 میگا واٹ بجلی کے منصوبے پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ کسی نے کیا خو ب بات کی تھی کہ اگر کسی کو کا لا باغ ڈیم کے نام سے مسئلہ ہے تو پھر اس کا نا م پاکستان ڈیم رکھ دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن