عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار رواں ماہ دو اہم ترین ڈویلپمنٹ سے مستقبل کے منظر کا پتہ دے رہے ہیں .ایران میں ہونے والے سہہ فریقی اجلاس اور اس کے مشترکہ اعلامیہ کے دھوم ابتک سنی جارہی ہے۔ ایران ‘ روس اور ترکی نے یک جان ہو کر داعش کے خلاف فیصلہ کن کارروائی اور شام کی سالمیت برقرار رکھنے کیلئے مشترکہ عہد کیا۔ دوسری بات جوزف جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے متعلق ہے۔ اسرائیل سے سعودی عرب آنے والے امریکن صدر کی آمد کی ’’برکت‘‘ ہے کہ سعودی عرب کے ہوائی اڈوں نے اسرائیلی طیاروں کے لیے خوش آمدیوں پر پھیلانے کا اعلان کیا۔ تجزیہ نگار ائیر پورٹ پر سعودی عرب کی اس فراغ دل پالیسی کو سعودی عرب اور اسرئیلی کے فاصلوں میں کمی سے تعبیر کررہے ہیں۔ تہران میں سہہ فریقی کانفرنس کا اعلامیہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے تاہم ترک صدر طیب اردگان اور روسی صدر دلان پوٹن کے امریکہ اور شام مخالف قوتوں کے خلاف دبنگ خیالات ابھی تک عالمی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ شام کی سالمیت کی مخالف قوتوں نے بشار الاسد کو منظر سے ہٹانے کے لیے جس قسم کا خونیں منصوبہ آشکارہ کیا اور اسے داعش کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جارہا ہے۔ اس مذموم منصوبے نے دارالحکومت دمشق سمیت شام کے اکثر شہروں کو نابودو برباد کر دیا ہے۔ شہری آبادی پر بمباری سے ہزاروں شامی مسلمان جان کی بازی ہارگئے، کروڑوں پناہ گزین ہوئے ۔شام سے دشمنی کا خونیں کھیل اور ڈرامہ رکے تو پناہ گزینوں کی واپسی ممکن ہوا۔ جوبائڈن پہلے امریکی صدر ہیں جو اسرائیل دارلحکومت تل ابیب سے براہ راست جدہ پہنچے۔صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد امریکی صدر کا مشرق وسطیٰ کا پہلا دورہ ہے اور سعودی عرب پہنچنے سے قبل انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ دورہ اسرائیل میں صدر جو بائڈن کی اسرائیلی ہم منصب اور فلسطین اتھارٹی کے سربراہ سے بھی ملاقات ہوئی۔فلسطینی قیادت سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے مشرقی اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کے لئے دو ریاستی فارمولے پر زور دیا اور ایک آزاد
فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے امریکہ حمایت کا یہ کہتے ہوئے یقین دلایا کہ دو ریاستی حل کا امریکی عزم اب بھی قائم ہے یہ تبدیل نہیں ہوا۔امریکی صدر کے مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل کے دورے میں کسی بڑے سفارتی بریک تھرو کی امید تو نہیں تھی اور خود صدر جو بائیڈن نے بھی واضح کردیا کہ فی الحال امن فلسطین اسرائیل امن مذاکرات کے لئے یہ موزوں وقت نہیں۔ فلسطین کے لئے امریکی امداد کی بحالی اور اسرائیل کی طرف سے زبردستی ضم کئے گئے مشرقی بیت المقدس کے علاقے میں فلسطینی اسپتال کے دورے نے امریکی حکومت کیطرف سے فلسطینیوں کی اشک شوئی کی کوشش کہا جا سکتا ہے۔
تاہم امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع فیصلے کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔اسرائیلی صدر کے ساتھ ملاقات میں جو بائڈن نے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا لیکن اسرائیلی میڈیا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں صدر جو بائڈن نے واضح کیا کہ ایران کے خلاف طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔صدر جو بائڈن پہلے امریکی رہنما ہیں جو تل ابیب سے براہ راست جدہ پہنچے۔جدہ ائیرپورٹ پر گورنر اور امریکہ میں تعینات سعودی سفیر کے استقبال سے ہی واضح ہوگیا تھا کہ سعودی عرب امریکی صدر کے دورے کو خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں۔کیونکہ دوسری طرف امیر کویت اور اردن کے بادشاہ کا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بنفس نفیس خود استقبال کیا۔سفارتکاری میں خاص طور پر ایسے تاریخی دوروں میں چھوٹی سے چھوٹی جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے امریکی صدر سے ہاتھ ملانے سے گریز نے بھی واضح کیا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ کے ساتھ ماضی کی تلخیاں نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی موجودگی میں امریکی صدر نے ولی عہد محمد بن سلمان کے سامنے سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کا معاملہ اٹھایا تو محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے سامنے فلسطینی صحافی شیریں ابوعاقلہ کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کا معاملہ اٹھایا۔امریکی صدر کے تیل کی قیمتوں میں کمی کے لئے پیداوار بڑھانے کے مطالبے پر ولی عہد محمد بن سلمان نے 12 لاکھ بیرل سے پیداوار 13 لاکھ بیرل تک بڑھانے کا وعدہ تو کیا لیکن یہ بھی واضح کردیا کہ سلطنت اس سے زیادہ پیداوار بڑھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
سعودی عرب دورہ کے دوران جوبائیڈن کے خیالات بھی نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ امریکی صدر بار بار سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی اور تعلقات کی مضبوطی کا دم بھرتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کسی کا بھی قابل بھروسہ دوست نہیںرہا۔ پاکستان نے افغانستان سے امریکہ اور اس کے ان اتحادیوں (نیٹوفورسز) کو نکلنے کے محفوظ راستے کی ضمانت دی۔ نیٹو فورسز کے پرامن انخلا کے بعد سے ابتک امریکہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا نہ کسی اسلامی مملکت کوطالبان حکومت کی کھل کر طرف داری کرنے کی اجازت دی۔یہ امریکہ کی ’’کامیاب‘‘ خارجہ پالیسی اور اسلامی ممالک کی ناکام اور کمزور حکمت عملی کی ایک جھلک ہے۔