دودھ کا جلا 

Jul 25, 2023

نائیلہ خاور

ملک میں سیاسی پارٹیوں کی اکھاڑ پچھاڑ کا موسم چل رہا ہے۔ نئی نئی پارٹیاں منظر عام پر آرہی ہیں اور یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ بہت عرصہ پوروں پر گنی جانے والی چند پارٹیاں ملک میں نظر آتی رہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد  اکثر اس بات پر کڑھتے پائے جاتے کہ چند چہروں کے سوا کوئی ہے ہی نہیں جس سے اْمید باندھی جا سکے ۔ جسے ووٹ دیے جائیں اور سپورٹ کیا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف جب وجود میں آئی تو لوگوں نے دامن بھر بھر  اس سے امیدیں جوڑ لیں کہ بس اب تو شاید آسمان نیچے آجائے گا اور زمین او پر چلی جائیگی۔ اْن سب کا بھی قصور نہیں تھا وہ سمجھتے تھے کہ ایک پڑھا لکھا انسان سیاست میں قدم رکھ رہا ہے تو اس کی تعلیم کے ثمرات ملک کو بھی نصیب ہونگے۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے لوازمات ہوتے ہیں۔ جو ایک لیڈر کو اور خاص طور پر سیاسی لیڈر کو کامیاب بناتے ہیں۔ لوگوں نے خان صاحب کی تعلیم اور کرکٹ کے میدان میں اْن کی لیڈر شپ کو دیکھا اور اخذ کر لیا کہ وہ سیاست کے میدان کے بھی ہیرو  قرار پائیں گے لیکن سیاست اور کرکٹ دو بہت الگ میدان ہیں۔ سیاست کے خار زار میں جن خوبیوں کے ساتھ کامیابی مشروط ہوتی ہے وہ خان صاحب میں سرے سے موجود نہیں تھیں۔
2018 کے انتخابات کے چند ہی روز بعد میں نے ایک ‘‘ہائیکو’’ اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شئیر کی تھی 
عمران خان کے لیے " کے کیپشن کے ساتھ 
پل میں ہی ٹوٹا تھا وہ خواب کہ جس میں ہمیں کچھ دیر تو رکنا تھا۔۔۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ خان صاحب آپ اتنی جلدی اپنے ووٹرز کی امیدوں پر پانی پھیر گئے۔ دنیا کیلئے وہ باتیں اْس وقت عجیب تھیں لیکن ہمیں پی ٹی آئی کے ابتدائی اقدامات کی وجہ سے  ہی یوں کہہ لیں ‘‘پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آرہے تھے‘‘یہاں ان ساری باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ پھر نئی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اْمیدیں جوڑنے جا رہے ہیں اور جوڑنے کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں لیکن باوجود اس کے کہ ہم جتنا جی چاہے مثبت سوچ لیں حقیقت تو یہی رہے گی  ناں کہ پرویز خٹک صاحب کی پارٹی اْسی گردوں کا اک ٹوٹا ہوا تارا ہے جس نے ملک کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ تمام 53 اراکین کے ساتھ جو تحریک انصاف میں تھے ایک نئی پارٹی کا وجود ، کیا واقعی نئی پارٹی کہلائے گا یا اسے فارورڈ بلاک کہنا چاہیے۔ 
گو کہ پرویز خٹک صاحب نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے اور انکے تمام پارٹی ممبران نے بھی پر زور مذمت کرتے ہوئے  چیئرمین پی ٹی آئی کو9 مئی کے حادثے کا ذمہ دار قرار دیا۔ مگر کیا یہ قدم بہت تاخیر کا شکار نہیں ہو گیا؟ایسا کرنے میں انہیں بہت دیر نہیں ہوگئی؟ یہ کام تو 9 مئی سے پہلے کرنے کا تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ملک کی سلامتی کے ساتھ اور اس کے ناموس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جانے لگا ہے۔ انہیں اور ان کے 57 اراکین پارٹی کو تو اسی وقت منحرف ہو جانا چاہیے تھا، کجا یہ کہ انتخابات سے چند دن پہلے پارٹی کا قیام عمل میں لا کر ایسی باتیں کی جائیں کہ ہم تو بہت محب وطن ہیں اور ہم عسکری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور یہ کہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔اگر چہ یہ تمام باتیں نہایت خوش کن ہیں اور ہم اس پر بے حد خوش بھی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ایسی خوشیوں سے ڈر ہی لگتا ہے جن کے عارضی نکل آنے کے چانسز کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ بہرحال وہ کہتے ہیں ناں کہ صبح کا بھولا شام کو واپس گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے اس لیے ہم پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کو صبح کا بھولا قرار دیتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر کار بند بھی رہیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ آندھی اور جھکڑ چلیں اور نئی پارٹی کے تازہ بیانیے اڑن چھو ہو جائیں۔ اب ہم ایسا نہ کہیں تو کیا کریں صاحب کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر ہی پئے گا ناں۔ 
اب آتے ہیں اگلی پارٹی کی طرف پنجاب میں جہانگیر ترین صاحب نے استحکام پاکستان پارٹی کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ کئی بڑے نام اْنکے ساتھ جڑ چکے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نقصان  پییپلز پارٹی کو ہوا جنہیں شاید امید تھی کہ تحریک انصاف کی منحرف شخصیات ان کی طرف رْخ کریں گی جن میں سابقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز شامل ہوں گے جن کا اپنے اپنے حلقے میں اچھا خاصا ووٹ بنک ہو گا کیونکہ وہ پچھلے انتخابات جیتے ہوئے ہیں تو اْن اثر و رسوخ والے اراکین اسمبلی (سابقہ) کے انکے ساتھ جڑنے سے پنجاب اور کے پی کے  میں پیپلز پارٹی کی حیثیت مستحکم ہو جائے گی سندھ پہلے ہی اْن کا ہے۔ اور یوں پیپلز پارٹی پورے ملک کی نمائندہ جماعت  بن کر اْبھرے گی۔ اس سلسلے میں زردای صاحب کا لاہور میں قیام بھی رہا مگر افسوس کہ معدودے چند کامیابیوں کے سوا پی پی پی کو کچھ زیادہ فائدہ نہ ہو سکا 
جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ ملک بھر سے سیاسی شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بلاول بھٹو زداری پر اعتماد کا اظہار ہے - اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ پیپلز پارٹی کی اْٹھان میں بلاول بھٹو زرداری کا بڑا ہاتھ ہے۔ متحدہ حکومت کے کارناموں میں سفارتی اور خارجہ تعلقات کی بحالی بلاشبہ بلاول کا کارنامہ ہے۔ پچھلے ادوار ِحکومت میں سندھ کی ترقی پر سوالیہ نشان ہی رہا ہے جبکہ اب پھر بھی پہلے سے بہتر صورتحال ہے اور یہ بلاول کے سیاسی ویڑن کا نتیجہ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی منظرِ عام پر نہ آتی تو پی ٹی آئی کے ووٹر اور نمائیندے ن لیگ کی بجائے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ترجیح دیتے۔ لیکن اس سے زیادہ ایک نو مولود پارٹی سے کسی کو کیا ڈر ہو سکتا ہے جو زیادہ سے زیادہ چند سیٹیں لے لیجاسکتی ہے۔ مگر انتخابات کے بعد  اسمبلیوں میں بیٹھنے کے لیے اْسے جڑ نا پھر اکثریتی پارٹی کیکے ساتھ پڑے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ہماری نیک خواہشات ہر اس فرد اور پارٹی کے ساتھ ہیں جو ہمارے ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے دل میں درد رکھتا ہو اور عملی طور پر اْسے ثابت بھی کر سکے۔

مزیدخبریں