امریکی حکومت نے گزشتہ ہفتے میں دو مرتبہ خان کے سائفر ڈرامے کو صریح جھوٹ قرار دیا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اسے پاکستان کی حکومت تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ الیکشن کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت آجائے وہ اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں ، امریکہ نے مزید کہا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی خاص فرد یا سیاسی جماعت سے تعلقات رکھنے کی پالیسی پر کاربند نہیں ہے۔بلکہ اس کے پاکستانی عوام سے دیرینہ تعلقات ہیں جو آئندہ بھی قائم رہیں گے۔ان امریکی بیانات کے بعد خان کے سائفر ڈرامے کی قلعی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
امریکی حکومت کے بیانات کے بعد خان کے دست راست اور ان کے خاص الخاص سیکر ٹری اعظم خان نے بھی سائفر ڈرامے کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔خان کے دور حکومت میں اعظم خان سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ان کی یہ ویڈیو پہلے ہی لیک ہو چکی ہے جس میں خان اپنے سیکر ٹری اعظم خان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکی سائفر پر کھل کر کھیلیں گے۔ان کی بیگم بشریٰ بی بی کی بھی ایک آڈیو لیک ہو چکی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ ارسلان بیٹا امریکہ کا نام لیے بغیر اس کہانی کو وائرل کر دیجئے۔عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ کوئی پندرہ ماہ قبل خان نے اسلام آباد کے ایک جلسہ عام میں جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے کہا کہ یہ ہے وہ ثبوت جس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے ان کا تختہ الٹنے کی سازش کی ہے اور اس ضمن میں اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے۔
یہ ہے امریکی سائفر ڈرامے کی ابتدائی کہانی جو آہستہ آہستہ پھیلتی چلی گئی اور خان نے اس میں ہر آنے والے روز نیا رنگ بھرا۔خان نے کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر بھٹو کی مثال پر عمل کیا تھا جب تحریک نظام مصطفی کے دوران انہوں نے پنڈی کے ایک بازار میں جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا تھا اور لوگوں کے ہجوم کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ امریکی حکومت ان کے خلاف سازش پروان چڑھا رہی ہے۔
اس واقعے کے بعد ستتر کے انتخابات ہوئے جن میں دھاندلی کے اگلے پچھلے ریکارڈ مات کردیے گئے۔اپوزیشن اتحاد پی این اے نے الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور چند روز بعد منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن اتحاد پی این اے کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے اور آرمی چیف جنرل ضیا ء الحق نے مارشل لاء نافذ کرکے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔عمران خان کو بھی حکومت چھوڑنا پڑی لیکن حکومت چھوڑنے کا اعلان انہوں نے از خود کیا۔انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔نگران حکومت کے قیام کے لیے صدر مملکت کو خط لکھ دیا۔
ایک نگران وزیر اعظم کا نام بھی سامنے آیا مگر انہوں نے منصب سنبھالنے سے معذرت کردی اس دوران یہ معاملہ عدلیہ کے سامنے رکھا گیا جس نے اسمبلیوں کی تحلیل نگران حکومت کے قیام اور نئے الیکشنوں کے انعقاد کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا۔اس طرح قومی اسمبلی پھر بحال ہو گئی جہاں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو کے مقابلے میں عمران خان کی حکومت کو قانونی ،آئینی اور پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق عمران کو گھر بھیجا گیا۔ خان نے حکومت میں ہوتے ہوئے یہ دھمکی دی تھی کہ انہیں اگر حکومت سے فارغ کردیا گیا تو وہ زیادہ خطر ناک ثابت ہوں گے۔حکومت ہاتھ سے چلے جانے کے بعد عمران خان نے آئے روز نت نئے بیانات دے کر چوکے چھکے لگانے شروع کر دیے۔انہوں نیا پنے پیروکاروں کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ان کی حکومت کو امریکہ نے معزول کروایا ہے۔
۔ شروع میں کسی کا نام لینے سے گریز کیا اور وہ اشاروں کنایوں میں آرمی چیف کو امریکی آلہ کار کہنے لگے۔انہوں نے جنرل باجوہ کا نام بھی لینا شروع کردیا ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ سطحی سکیورٹی کونسل میں دو مرتبہ سائفر ڈرامے پر غور کیا گیا لیکن دونوں مرتبہ اعلامیے میں سائفر ڈرامے یا امریکی سازش کی تائید نہیں کی گئی۔
جب عمران خان نے دیکھا کہ ان کا جھوٹ پکڑا گیا ہے تو انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ سائفر ڈرامہ تو محض ایک سیاسی بیان تھا۔ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کو جغرافیائی آزادی تو مل گئی لیکن عملی طور پر سیاسی آزادی حاصل نہیں ہوئی اسی طرح انہیں حکومت تو مل گئی لیکن فیصلے کرنے کی آزادی نہیں ملی اور یہ اختیار آرمی چیف نے اپنے اختیار میں رکھا۔جھوٹ بولنا کو ئی عمران خان سے سیکھے۔ ساڑھے تین برس کے دور میں تین برس تک تو وہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے گن گاتے رہے۔ انہوں نے اپنے کلغی میں ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال سے کارنامے لٹکائے رکھے۔ورلڈ کپ پاکستان نے صرف ایک بار جیتا ہے اس لیے عمران خان کا یہ کوئی نرالہ کارنامہ نہیں تھا۔
بہر حال حکومت سے نکل کر انہوں نے امریکی سازش تو فراموش کردی لیکن کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستانی فوج کو رسوا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے پاکستانی فوج کے خلاف ففتھ جنریشن جنگ کا محاذ کھولا اور اپنے پیرو کاروں کے ذہنوں میں اس قدر زہر گھولا کہ نو مئی کو انہوں نے پاک فوج کی دو سو تنصیبات پر ہلہ بول دیا۔نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں کوئی دشمن بھی نہ کر سکا۔امریکی سائفر سازش کا بھانڈا تو پھوٹ گیا۔ اب وقت آیا ہے کہ نو مئی کی سازش میں شریک قوتوں کو احتساب کا نشانہ بننا پڑے گا۔
خان کے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ نو مئی کے مجرموں کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جائے ۔میں کہتا ہو ں کہ یہ مقدمے نا سول عدالتوں میں چلیں نہ فوجی عدالتوں میں ،نو مئی کے مجرموں کو عوامی عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو فوج کی طرف انگلی اٹھانے کی جرا ت نہ ہو سکے۔