اس وقت بظاہر تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ نئی اسمبلی اور نئی منتخب حکومت کا قیام اب عمل میں آیا ہی چاہتا ہے۔ بیچ میں نگران حکومت کا تین ماہ کا پڑا? ہوگا اور پھر سلطانی جمہور کے معطر جھونکے عوام کی آسودگی اور دل و روح کی بالیدگی کا اہتمام کرتے نظر آئیں گے۔ اور تو اور۔ موجودہ حکمران اتحادی مسلم لیگ (ن) کی قیادت میاں نوازشریف کی چوتھی وزارت عظمیٰ میں مسلم لیگ (ن) ہی کے اقتدار کے سہانے سپنوں سے راندہ درگاہ عوام کو بہرہ ور کرنے کے شوقِ دیدنی میں مصروف ہے۔ اعتماد اتنا ہے کہ وزیراعظم میاں شہبازشریف ابھی سے ملک اور عوام کیلئے ’’ستے خیراں‘‘ والی ہریالی کے نظارے کرا رہے ہیں جن کے بقول میاں نوازشریف کی آنیوالی وزارت عظمیٰ میں صنعتوں کو سستی گیس ملے گی‘ کشکول توڑیں گے‘ دس سال میں بھارت کو اقتصادی میدان میں پیچھے چھوڑیں گے اور توڑا جانیوالا کشکول بنی گالہ بھجوا دیں گے۔
اس وقت وزیراعظم ہی نہیں‘ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے بزرجمہروں کو بھی خوش فہمیوں کی زبان لگی ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ پنجاب رانا ثنائ اللہ یہ بڑھک مار کر اپنی پارٹی قیادت کیلئے سرخوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ ’’شیر‘‘ کامیاب ہوا تو ملک بحرانوں سے نکل آئیگا۔ تیقن اتنا گہرا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے حکومتی اتحادیوں سے مشاورت کے بغیر ہی نگران وزیراعظم کیلئے اپنے تئیں موجودہ وزیر خزانہ اور میاں نوازشریف کے سنبھندی محمد اسحاق ڈار کے نام کا اعلان کر دیا۔ گویا مسلم لیگ (ن) اپنی مرضی کے مطابق نگران سیٹ اپ اور ’’اپنی‘‘ آنیوالی حکومت کی بساط بچھا کر بیٹھی ہوئی ہے اور اسکی قیادت کو احساس نہیں کہ میاں شہبازشریف کی زیرقیادت اتحادی جماعتوں کی موجودہ حکومت کی پیدا کردہ کمر توڑ اور جگر چھوڑ مہنگائی سے زچ ہوئے عوام کے دلوں میں کیا ابال پیدا ہو رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی حکومت کی میعاد پوری ہونے سے صرف دو ہفتے قبل بھی عوام پر ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک بجلی مہنگی کرنے کا ہتھوڑا چلایا گیا جو عوام کو موجودہ حکومتی قیادتوں سے آئندہ انتخابات میں حساب برابر کرنے کیلئے اکسا رہا ہے۔
تو حضور! آپ کس دھیان میں ہیں‘ کس گمان میں ہیں۔ اس وقت لذتِ کام و ذہن والی اشیائ ہی نہیں‘ روزمرہ استعمال کی عام اشیائ کے نرخ بھی عوام کی دسترس سے باہر نکل چکے ہیں۔ ان راندہ درگاہ عوام کی اکثریت ملازمت پیشہ مزدور طبقات‘ غریب کسانوں‘ دیہاڑی داروں پر مشتمل ہے جنہیں حکمرانوں کے اٹھائے گئے مہنگائی کے سونامی ہی نہیں‘ بے روزگاری کے عفریت بھی نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے اگلے اقتدار کے یقین کے ساتھ لپٹے مسلم لیگ (ن) اور دوسری حکمران اتحادی جماعتوں کے قائدین کو پہلے تنخواہ دار‘ مزدور طبقات کی موجودہ حالتِ زار کا اندازہ تو لگا لینا چاہیے جن کی تنخواہوں سے بھی جبراً انکم ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے جبکہ وہ روزمرہ استعمال کی اشیائ کی خریداری کے وقت جنرل سیلز ٹیکس‘ لیوی اور دوسرے محصولات بھی اپنی جیب سے ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور پھر بجلی‘ پانی‘ گیس کے بلوں میں عائد مختلف ٹیکسز اور ڈیوٹیاں بھی عوام الناس کا اقتصادی بوجھ بڑھاتی ہیں۔ تنخواہ دار طبقات کی اکثریت تو معمولی تنخواہوں پر گزارا کرتی ہے جن کے پاس اپنے گھر اور ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں ہوتی اور کچن کے اخراجات کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور اہل خانہ کے علاج معالجہ کے اخراجات بھی انہیں اپنی جیب سے اٹھانا پڑتے ہیں کیونکہ اعلیٰ افسران کی طرح انہیں تنخواہ کے علاوہ کوئی الا?نس اور پٹرول، بجلی، پانی فری جیسی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔
اس صورتحال میں آج جس بے ڈھب انداز میں مہنگائی کے سونامی اٹھائے جا رہے ہیں‘ معمولی تنخواہوں والے طبقات کیلئے اپنے گھر کا کچن چلانا بھی ناممکنات میں شامل ہو چکا ہے چہ جائیکہ وہ گھر کے کرائے‘ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی‘ بچوں کی تعلیم اور علاج معالجہ کے اضافی اخراجات پورے کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ جبکہ تنخواہ دار طبقات کے سر پر بے روزگاری کے خطرے کی تلوار بھی ہمہ وقت لٹکتی رہتی ہے اور نجی اداروں میں تو بروقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی بھی ان طبقات کی اقتصادی مشکلات اور ذہنی خلجاں بڑھاتی رہتی ہے۔ آج بالخصوص ملک کے پڑھے لکھے نوجوان طبقات کو بے روزگاری کے جس عفریت کا سامنا ہے‘ اس نے متوسط اور غریب گھرانوں سے زندہ رہنے کا چلن بھی چھین لیا ہے چنانچہ آئے روز انفرادی اور اجتماعی خودکشی کے افسوسناک سانحات رونما ہو رہے ہیں اور انسانی المیوں کی اذیت ناک داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔
ایسے حالات میں جب کسی معاشرے میں خطِ غربت کے نیچے انسانی آبادی کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہو تو وہ معاشرہ کسی صورت مذہب انسانی معاشرہ کہلانے کا حقدار نہیں رہتا اور ایسے معاشرے میں جرائم اور گناہوں کا پھیلا? فطری امر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ارض وطن آج ایسے ہی معاشرے کے قالب میں ڈھل رہی ہے جہاں شرف انسانیت کی پاسداری تو بہت دور کا معاملہ ہے‘ انسانی بقائ کے تقاضے نبھانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ایسے معاشرے وسائل و دولت کی غیرمساویانہ تقسیم کے باعث غیرمتوازن ہوتے ہیں تو انکے ملیامیٹ ہونے کے مواقع زیادہ نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پیدا ہونیوالی اس گھمبیر صورتحال کے جو طبقات اور ادارے ذمہ دار ہیں‘ وہ اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بدقسمتی سے با وسائل اشرافیہ طبقات نے ملک میں موجود ہر نعمت و سہولت کو اپنا استحقاق سمجھ کر لوٹ مار کے ذریعے اپنی تجوریاں بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہمارے حکمرانوں نے‘ جو درحقیقت اشرافیہ طبقات ہی کا حصہ ہیں‘ ان طبقات کیخلاف آئین و قانون کی پاسداری و عملداری کیلئے کبھی تردد ہی نہیں کیا چنانچہ قیام پاکستان سے اب تک کے 75 سال سے زائد عرصے کے دوران مراعات یافتہ اور محروم طبقات میں فاصلہ بڑھتا ہی گیا ہے۔ ہر آنیوالا حکمران اقتدار سے پہلے راندہ درگاہ عوام کا مستقبل محفوظ بنانے‘ قومی وسائل اور دولت کی لوٹ مار کرنے والوں کو کڑے احتساب کی چھاننی سے گزارنے‘ ملک کی اقتصادیات و معیشت کو اپنے پا?ں پر کھڑا کرنے اور مہنگائی‘ بے روزگاری کے آگے بند باندھنے کے بلند بانگ دعوے ضرور کرتا ہے مگر عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی اسکے تیور بدل جاتے ہیں اور سلطانی جمہور کے جو ثمرات عوام تک پہنچنے کے متقاضی ہوتے ہیں وہ سلطانوں کے آنگنوں کی زینت بننا شروع ہو جاتے ہیں چنانچہ سسٹم خراب سے خراب تر ہو رہا ہے‘ عوام زندہ درگور ہیں اور ریاستی ادارے حکمران اشرافیہ طبقات کے مفادات کا ہی دم بھرتے نظر آتے ہیں۔
جب ان طبقات پر کسی قسم کا ریاستی چیک نہیں ہوگا تو انکی ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری‘ مصنوئی قلت و مہنگائی کی روش عوام کو خطِ غربت کی لکیر سے تیزی کے ساتھ نیچے دھکیلنے کا ہی باعث بنے گی۔ آج عوام کیلئے بلامبالغہ آبرومندی والی زندگی گزارنا مشکل اور عملاً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ روزمرہ استعمال کی اشیائ کے نرخوں کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹی بلوں کی جستیں بھرتی شرح بھی عام آدمی کے اعصاب توڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ اب تو نان‘ روٹی‘ سبزیاں بھی عوام کیلئے خواب بنتی جا رہی ہیں اور جب بجلی کی قیمت میں مزید سات روپے تک فی یونٹ اضافے سے عوام کو بجلی کا ایک یونٹ 60 سے 63 روپے میں ملے گا تو وہ پتھر کے زمانے کی طرف واپس لوٹنے پر ہی مجبور ہونگے۔ کیا عوام کیلئے اس بدحالی کا اہتمام موجودہ حکمران اتحادی جماعتوں کا اگلا اقتدار بھی یقینی بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔ اگر عوام کے روبرو آپ کا یہی نامہ اعمال ہے تو جناب! انکے پاس جستیں بھرکر جائیے‘ آپ کی ساری خوش فہمیوں کے کس بل نکل جائیں گے۔
٭…٭…٭