امام حسینؑ: شہیدِ انسانیّت

 حکومت حکمت …ڈاکٹر مقصود جعفری 
Drmaqsodjafri@gmail.com
22جولائی 2023کو سجائی گئی محفل میں ’’ امام حسینؓ : شہیدِ انسانیّت کے موضوع پر کلیدی خطاب کی دعوت دی۔ ڈیڑھ گھنٹہ خطاب میں سانحہ کربلا پر تفصیل سے گفتگو کی۔ ممتاز دانشوروں، ادیبوں ، صحافیوں اور دانشور خواتین نے شرکت کی۔ میرے خطاب کے بعد سامعین نے سوالات کیے جن کے میں نے جوابات دیئے۔انجیلِ مقّدس میں سانحہ کربلا کا ذکر ان الفاظ میں ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک عظیم ذبیحہ مقرر کیا گیا ہے۔ سانحہ کربلا کا ذکر قرآنِ مجید کی سورہ الصافات کی آیت 105 تا آیت  108میں حضرت ابراہیمؑ سے الہی خطاب  میں یوں مذکور ہے:’’ آپؑ نے خواب سچا کر دکھایا۔ بے شک یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور ہم نے اس کا فدیہ  بڑی قربانی  میں بدل دیا۔ اور اسے آخرین کے لئے چھوڑ دیا۔ تحقیق ہم اس طرح محسنین کو جزا دیتے ہیں’’۔ علامہ اقبال نے اس آیت کے بارے میں کہا
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنیء ذبحِ عظیم آمد پسر
فوق بلگرامی کی شہادتِ امام حسین علیہ السلام پر لکھی گئی کتاب کا عنوان ’’ ذبحِ عظیم‘‘ ہے۔ شہادتِ امام حسین پر دنیا کی ہر زبان میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی کی کتاب ’’ سِر الشہادتین‘‘ ، مولانا کوثر نیازی کی کتاب’’ ذکرِ حسین‘‘ اور علامہ سید نقی قبلہ نقن  کی کتاب ’’ شہیدِ انسانیّت‘‘ لاجواب کتب ہیں۔ 
   امام حسین علیہ السلام کی شہادت اختیاری تھی۔ شہادتِ اجباری نہیں تھی۔ جب مدینہ کے گورنر نے آپؓ کو یزید کا یہ پیغام پہنچایا کہ یا آپؓ کا سر یا آپؓ کا ہاتھ مطلوب ہے یعنی اگر آپؓ یزید کی بیعت نہیں کریں گے تو آپ ؓکا سر قلم کر دیا جائے گا۔ آپؓ نے سر کٹوانا منظور کر لیا لیکن ایک ظالم و فاسق و مرتد اور بد کردار کی بیعت نہ کی اور شہادتِ اختیاری کے مقام پر فائز ہوئے۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں
شاہ است حسینؓ ، بادشاہ است حسینؓ
دین است حسین ؓ، دین پناہ است حسین ؓ
سر داد ، نہ داد دست در دستِ یزید 
حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین ؓ
  امام حسینؓ  کی لازوال و بے مثال قربانی سے متاثر ہو کر عالمی غیر مسلم شخصیات نے بھی اْنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جن میں امریکی مورخ ( Washington Ironic), جرمن دانشور ( Marvin Monsieur),سکاٹش فلسفی اور تاریخ دان(Thomas Carlyle) , برطانوی تاریخ دان (Edward Gibbon)، مہاتما گاندھی اور جیکسن منڈیلا شامل ہیں۔
   امام حسین علیہ اسلام کا جہاد اسلامی نظام کے قیام کے لئے تھا۔ اسلام میں ملوکیّت ، فسطائت اور آمریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام خلافت مبنی بر شورائیت کا نظام ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے’’ و شاورہم فی الامر’’ ( ان سے معاملات میں مشاورت کیا کریں’’۔ یہ اللہ کا رسول اللہ سے خطاب ہے۔ مشاورت جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ مولانا مودودی اپنی معروف کتاب’’ خلافت و ملوکیّت ‘‘ میں ملوکیّت کو غیر اسلامی نظام قرار دیتے ہیں اور نظامِ شورائیت کو اجتہادی نقطہ نظر سے اسلامی جمہوریت گردانتے ہیں۔ امام حسین علیہ اسلام نے بھی ملوکیّت کے خلاف آوازِ حق بلند کی اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے میدانِ کربلا میں یومِ عاشورہ فوجِ یزید سے مخاطب ہوتے ہو? فرمایا۔ ‘‘ ان کان دینِ محمد لم یستقم الا بقتلی، یا سیوف خزینی’’: ( اگر دینِ محمد میرے قتل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا تو اے تلوارو لپکو اور میرے ٹکڑے کر دو) ۔ آپؓ نے مزید فرمایا’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ بیت المال کو حواریوں میں لٹایا جا رہا ہے جبکہ غرباء  کے منہ سے روٹی کے نوالے بھی چھین لیے گئے ہیں۔ لوگوں کے سروں پر جبر کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اے لوگو میں تمہاری آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوں’’ ۔ تاریخِ طبری اور تاریخ کی دیگر کْتب میں امام حسینؓ کے خطبات درج ہیں۔ ایک مقام پر آپؓ نے خطاب میں فرمایا:’’ میں حکومت اور تاج و تخت کے لئے نہیں اصلاحِ امّت کے لیے نکلا ہوں’’- امام حسین علیہ اسلام کی مبازرت انسانی حقوق کے لیے تھی۔ آپ اسلام کو ایک خدائی ضابطہ حیات سمجھتے تھے اور شہنشاہیت کو غیر اسلامی نظامِ سیاسات گردانتے تھے۔ علامہ اقبال نے واقعہ کربلا کے مقاصد کو ان اشعار میں قلم بند کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں
سرِّ ابراہیم و اسماعیل بْود 
یعنی آں اجمال را تفصیل بْود 
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کر 
بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است 
پس بنا? لا الہ گردیدہ است 
چوں خلافت رشتہ از قراں گسیخت 
حرّیت را زہر اندر کام ریخیت 
مدعائش سلطنت بودے اگر 
خود نکردے با چنیں ساماں سفر 
  آخر میں چند نامور اردو شاعروں کا بارگاہِ حسینی میں خراجِ عقیدت پیش ہے۔
مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں 
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر 
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
مولانا محمد علی جوہر کہتے ہیں
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے 
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
جوش ملیح آبادی کہتے ہیں
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو 
ہر قوم پْکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ 
فیض احمد فیض کا ایک طویل مرثیہ ‘‘ مرثیہ امام’’ کے عنوان سے اْن کے شعری مجموعہ میں شامل ہے جس کا یہ شعر امام حسین علیہ السلام کی قربانی کا خلاصہ ہے۔ کہتے ہیں
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا مْنکر نہیں، وہ مْنکرِ دیں ہے 
 شہادتِ حسین کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمانان عالم متحد ہو کر اسلام کے جمہوری اور فلاحی نظام کا قیام کریں۔فرقہ بندی اور مذہبی انتہا پسندی سے گریز کریں کیونکہ امامِ عالی مقام خود میدانِ کربلا میں فرما گئے کہ میرے قیام کا مقصد قیامِ دین اور انسانی حقوق کی بحالی ہے اور اسی لئے انہیں ‘‘ شہیدِ انسانیّت کہا جاتا ہے۔  حدیث  مبارک ہے:’’ حسین منی و انا من الحسین’’ ( حسین مجھ میں سے ہے اور میں حسین میں سے ہوں) رسول اللہؐ کا حسین میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اسلام کے اصلی، حقیقی، ابدی اور سرمدی پیغام کو حسین اپنے خون سے آبیاری کر کے زندہ جاوید کرے گا۔’’اسلامِ استعماری’’ اور ‘‘ اسلامِ حقیقی’’ کا فرق تا قیامِ قیامت دنیا پر واضع کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن

’’پاکستان تحریک احتجاج‘‘

آواز خلق فاطمہ ردا غوری  زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء ...