بلوچستان کی سیاسی قیادت پر سوالیہ نشان!!!!!

وسائل کے معاملے میں بلوچستان کی محرومی کا ہر جگہ تذکرہ ہوتا ہے۔ اس بارے ماضی میں بہت لکھا گیا، بولا بھی جاتا رہا ہے، آئندہ بھی اس معاملے میں میڈیا آواز اٹھاتا رہے گا۔ انہی صفحات پر میں نے بھی بلوچستان کے مسائل پر بہت لکھا ہے۔ حکمران کیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کو نظر انداز کرتے ہیں اس بارے بھی بہت بات ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بھی بلوچستان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بلوچستان ایک حساس صوبہ بھی ہے۔ دشمنان پاکستان کی نظریں اس صوبے پر ہیں۔ دشمنوں نے بلوچی جوانوں کو بہکانے کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔ ریاست مخالف بیانیے کی وجہ سے بعض نوجوان دشمنوں کے بہکاوے اور لالچ میں آتے بھی ہیں لیکن ریاست پاکستان مسلسل شرپسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے جب کہ بہکے ہوئے افراد کو واپس قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات بھی ساتھ ہی ساتھ ہو رہے ہیں۔ ان سب مسائل میں سیاسی قیادت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیا سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں تو اس معاملے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقامی قیادت میں بھی اتحاد کی کمی ہے، بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی صوبے کے بڑھتے ہوئے مسائل کی ذمہ دار ہے۔ اگر سیاسی قیادت متحد ہو کر صوبے کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے تو دیرینہ مسائل کا ناصرف حل ہو سکتا ہے بلکہ صوبہ ترقی بھی کر سکتا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت حکومت سازی میں مرکز کی مدد تو ضرور کرتی ہے اور پھر صوبے میں حکومت سازی کے لیے مرکز سے مدد لیتی بھی ہے لیکن سیاسی قیادت کا اس سے زیادہ کردار نظر نہیں آتا۔ یہی بلوچستان کے وسائل سے محروم انسانوں کی بدقسمتی ہے۔ وہ ہر مرتبہ انتخابات میں اسی سوچ کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں کہ اب ان کی قسمت بدلے گی لیکن یہ سوچتے سوچتے دہائیاں گذر چکیں لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ ان حالات میں اگر کسی بھی حوالے سے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہنے والے کسی بھی شخص پر فنڈز لے غلط استعمال یا خردبرد یا مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگے تو اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اب تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید بلوچستان کے لوگوں کی مشکلات اقتدار میں آنے کے بعد کسی کے لیے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے دور کی آڈٹ رپورٹ ہے جس میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال23-2022 میں بلوچستان حکومت کو چار سو اکانوے ارب ترانوے 
کروڑ روپے سے زائد کی آمدن ہوئی۔ کم آمدن والے صوبے میں آمدن و اخراجات میں عدم توازن اس طرح واضح ہوا جب حکومت نے پانچ سو تین ارب چورانوے 41 لاکھ روپے خرچ کر ڈالے۔ یعنی صوبائی حکومت نے اس سال آمدن سے 12 ارب روپے سے زائد خرچ کر ڈالے۔ مالی سال 23-2022کے دوران صوبائی حکومت نے محکمہ پی ایچ ای، سی اینڈ ڈبلیو، لوکل گورنمنٹ اور آبپاشی کے لیے ترقیاتی مد میں نئی اسکیموں میں بجٹ کا 74 فیصد حصہ مختص کیا جبکہ دیگر شعبوں کے لیے ایک فیصد سے بھی کم ایلوکیشن رکھی گئی تاہم صوبے میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص رقم کا صرف 30 فیصد حصہ خرچ کیا گیا جو کہ انتہائی کم ہے۔ اسی مالی سال کے دوران صوبے میں چھبیس ارب چون کروڑ پانچ لاکھ 45 ہزار روپے کل مالی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں۔ آڈٹ کے دوران ایک کروڑ 7 لاکھ روپے کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، ایک کیس میں بہتر لاکھ نوے ہزار روپے کا فراڈ اور خرد برد کی گئی۔ بارہ مختلف کیسز  میں حکومت کو ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے سے زائد کے نقصانات ہوئے، تیس ایسے کیسز ہیں جن میں تین ارب اکتیس کروڑ اسی لاکھ روپے سے زائد کی ٹیکس چوری کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ 
ایک طرف صوبے میں احساس محرومی ہو، دشمنان پاکستان کی نظریں بلوچستان پر ہوں اور وہاں سیاسی حکمرانوں کے بارے آڈٹ رپورٹس ایسی ہوں کہ اربوں روپے خرد برد ہوں، اربوں کے فنڈز کا غلط استعمال ہو یا بھاری رقم کا کچھ پتہ ہی نہ چلے کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا بلوچستان کی محرومی کا رونا رونے والے حکمران اپنا احتساب کریں گے۔ کیا ایسے صوبہ ترقی کرے گا۔ یعنی اس کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگوں کے گھر سیلاب میں تباہ ہوتے رہیں بلوچ حکمرانوں کا اس سے کیا لینا دینا ہے۔ کوئی عبدالقدوس بزنجو سے پوچھے کہ کیا یہ اربوں روپے وسائل سے محروم بلوچوں کی بہتری کے لیے خرچ نہیں ہو سکتے تھے کیا ان پیسوں پر غریب بلوچوں کا کوئی حق نہیں تھا، کیا ان پیسوں سے کوئی سکول، کالج یا عوامی مفاد کا کوئی اور کام نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے بلوچستان سے بہت محبت ہے اور اس کی ایک وجہ مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی بھی ہیں کیا شاندار انسان تھے اللہ اعلیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آج کون ہے جو حقیقی معنوں میں بلوچستان کی محرومی ، بلوچوں کے طرز زندگی کو بلند کرنے کی جدوجہد کر رہا۔ اکثریت کا اپنا مفاد ہے بدقسمتی ہے کہ عبدالقدوس بزنجو بھی پاکستان کی اس روایتی سیاست کا حصہ بن گئے جس کی وجہ سے آج ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ معیشت ڈوبی ہوئی ہے، قرضوں کا بوجھ ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ امن و امان کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی برداشت کم ہوتی جا رہی ہے، پرتشدد روئیے فروغ پا رہے ہیں، قومی سطح پر ایسے مسائل تشویشناک ہیں۔ اگر بنیادی ڈھانچے، وسائل، مواقع اور تعلیمی لحاظ سے بہتر صوبوں میں مشکلات ہیں تو پھر بلوچستان جیسے صوبے میں تو اور زیادہ محنت ، دیانت اور شفاف انداز میں لوگوں کی خدمت کرنا ہو گی۔ لیکن جب عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے دوران آڈٹ رپورٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوں گی تو پھر مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ معاملات تشویش ناک حد تک خراب ہوتے جائیں گے۔ کاش کہ سیاسی حکمران یہ سمجھ جائیں۔ یعنی ڈوبتی معیشت میں بھی اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہے۔ اللہ خیر کرے۔
آخر میں خواجہ پرویز کا کلام
جو نہ مل سکے وہی بے وفا 
یہ بڑی عجیب سی بات ہے
جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر 
وہی آج تک میرے ساتھ ہے
جو کسی نظر سے ادا ہوئی
 وہی روشنی ہے خیال میں
وہ نہیں تو منتظر ہوں میں
 یہ خلش کہاں تھی وصال میں
تیرے پیارے لب پہ گلہ نہ ہو
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
میری جستجو کو خبر نہیں
 نہ وہ دن رہے نہ وہ رات ہے
میرا نام تک جو نہ لے سکا 
جو مجھے قرار نہ دے سکا
جسے اختیار تو تھا مگر
 مجھے اپنا پیار نہ دے سکا
وہی شخص میری تلاش ہے 
وہی درد میری حیات ہے
جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر
 وہی آج تک میرے ساتھ ہے

ای پیپر دی نیشن