خان صاحب نے دو روز پہلے فرمایا، 9 مئی کو فوجی عمارتوں کے سامنے احتجاج کرنے کی کال میں نے دی تھی۔ پارٹی رہنمائوں کو معاملے کی سنگینی کا احساس کرنے میں کچھ گھنٹے لگ گئے چنانچہ کل قدرے، خیر سے سلمان اکرم راجہ نے میڈیا کو بتایا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کل کہا تھا، وہ دراصل نہیں کہا تھا۔
یہ تردید اس ’’اطلاع‘‘ جیسی ہے جو ایک بچے نے دروازے کی گھنٹی بجانے والے ملاقاتی کو دی تھی۔ ’ملاقاتی نے بچے سے کہا‘ ابو کو بلائو۔ بچہ اندر گیا اور واپس آ کر بولا، ابّو نے کہا ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔
بہرحال ہمیں سلمان اکرم راجہ کی ’’تردید‘‘ پر اعتماد ہے۔ شہریار آفریدی کی طرح وہ بھی ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ہر ایک کو ہر سچّے آدمی کی قدر کرنی چاہیے خواہ آفریدی ہو، خواہ راجہ صاحب!
______
دو ہفتے یا شاید اس سے بھی زیادہ دن ہوئے جب خان صاحب نے اعلان کیا کہ وہ بھوک ہڑتال پر جا رہے ہیں۔ یہ اعلان سن کر پوری قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ معاف کیجئے گا، تشویش کی لہر لکھنا تھا، خوشی لکھ دیا۔ کچھ دن یہ اعلان برقرار رہا، پھر خان صاحب کو دیسی بکروں مرغوں کی پیشگی یاد آ گئی اور سخت اداسی نے انہیں گھیر لیا۔ بالآخر انہوں نے یہ قومی ذمہ داری اپنی پارٹی کے لیڈروں پر ڈال دی کہ ان کے بجائے وہ بھوک ہڑتال کریں۔
چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی۔ پارٹی لیڈروں نے ہر روز چار گھنٹے کی بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ اطلاع ہے کہ بھوک ہڑتال کے نتائج کا جائزہ لے کر اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ یعنی بجائے اس کے ہر روز صرف چار پارٹی رہنما چار گھنٹے کی بھوک ہڑتال کریں، آٹھ رہنما دو دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال کریں گے۔ یہ دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا یہاں تک کہ 32 رہنما آدھے آدھے گھنٹے کی اور بعدازاں 64 رہنما پندرہ پندرہ منٹ کی بھوک ہڑتال کریں گے۔
یقینا اس بھوک ہڑتال سے دنیا ہل کر رہ جائے گی۔ لوگ گاندھی، شورش کاشمیری اور غفار خاں کی بھوک ہڑتال کو بھول جائیں گے۔
______
فوج کے ترجمان نے جو بریفنگ دی، اس کا بہت ہی اہم حصّہ اس فیصلے کا اعلان تھا کہ خود پر الزامات کا جواب دینے کیلئے وہ تسلسل کے ساتھ میڈیا کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔
یہ اعلان اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ فوج پر الزامات کا نوٹس لینے اور اس کی پوزیشن صاف کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے جو وہ ادا نہیں کر رہی۔
مزے کی بات ہے کہ اتنے بڑے طنزیہ اشارے کے بعد بھی حکومت نے ملنگوں والی شال بدستور اوڑھ رکھی ہے۔ فوج کیا، وہ خود اپنی صفائی دینے کیلئے بھی تیار نہیں__ ساری موج ملنگاں دی۔
______
گوجرانوالہ میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر مشترکہ رہائش رکھنے والے دو بھائیوں میں جھگڑا ہو گیا اور آخر میں بڑے بھائی نے چھوٹے کو چھری سے ذبح کر دیا۔ مشترکہ بل دس ہزار روپے کا آیا تھا۔ دونوں بھائی مزدور تھے، دس ہزار کا بل ادا کر ہی نہیں سکتے تھے۔ مزدور کا گھر فریج اور اے سی سے محروم ہوتا ہے، سارا گھرانہ بجلی کے ایک ہی پنکھے پر گزارا کرتا ہے۔ بلب آج کل رات کو بھی نہیں چلائے جاتے پھر بھی دس ہزار کا بل آ جاتا ہے۔ اور جو لوگ ذرا مڈل کلاس کے ہیں، ان کے بل تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ آنے لگے ہیں۔
شہباز دور میں غریب اور مڈل کلاس کی زندگی مشکل نہیں، ناممکن ہو گئی ہے:
گْھٹ کے مر جائو، یہی مرضی میرے ’’شہباز‘‘ کی ہے۔
______
بجلی اتنی زیادہ مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی پتہ چلی کہ نجی بجلی گھروں (آئی پی پی ز) کو بہت زیادہ قیمت ادا کی جا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ ایک نجی بجلی گھر سے بجلی ساڑھے سات سو روپے یونٹ خریدی جا رہی ہے۔ مزید پتہ چلا کہ یہ سپر لاڈلا بجلی گھر عمران خان کے سپر لاڈلے رزاق دائود کا ہے۔ یہ وہی رزاق دائود ہیں جن کو عمران خان نے ارب ھا روپے کا ٹھیکہ کوڑیوں کے بھائو دیا تھا۔ اور یہ وہی رزاق دائود ہیں جنہوں نے سی پیک کے خلاف بیان دے کر امریکہ اور آئی ایم ایف کو پاکستان کی معاشی خودمختاری میں ظالمانہ مداخلت کا موقع دیا تھا اور چین کو ناراض کیا تھا۔
پراجیکٹ عمران باضابطہ طور پر 2014ء میں لانچ کیا گیا تھا اور تب بجلی 8 روپے یونٹ تھی اور پراجیکٹ عمران کے تحت تب بجلی کے بل جلائے جاتے تھے۔
پراجیکٹ عمران کا تانا بانا کتنا وسیع تھا۔ بجلی کے بل، سی پیک، آئی ایم ایف، خانہ جنگی، انارکی، فوج کے خلاف مہم، 9 مئی اور اس کے منصوبہ سازوں کی عدلیاتی سہولت کاری…قومی زندگی کی ڈور اتنی اْلجھ گئی ہے کہ اب اس کا سرا کسی کی پکڑائی میں آتا ہی نہیں۔
______
شمالی یمن کے حوثیوں نے اسرائیل پر ڈرون حملہ کیا۔ باقی ڈرون طیارے تو مار گرائے گئے لیکن ایک ڈرون دارالحکومت تل ابیب پر جا ٹھکا۔
کوئی خاص نقصان نہیں ہوا لیکن اس خبر کی اہمیت یہ تھی کہ پہلی بار حوثیوں نے 16 سو کلومیٹر دور سے کم از کم ایک نشانہ تو ٹھیک لگایا۔ اسرائیل کو خفّت اٹھانا پڑی چنانچہ اس نے بدلہ لیا اور شمالی یمن کی واحد بڑی بندر گاہ الحدیدہ پر ایف 35 طیارے سمیت 12 جنگی جہازوں کے ذریعے حملہ کیا اور بندرگاہ کے تینوں حصّے تباہ کر دئیے۔ دسیوں لاکھ لٹر تیل جل کر ختم ہو گیا، 6 افراد مارے گئے، سو کے قریب زخمی ہوئے۔ بعض دیگر عمارتیں بھی تباہ ہوئیں۔
ایران کی طرح شمالی یمن کے پاس بھی فضائی دفاع کا کوئی نظام نہیں ہے ورنہ -12 طیارے جو 2 ہزار کلومیٹر دور سے آئے، جوابی حملے کا نشانہ بنتے اور زیادہ نہیں تو دو چار مار گرائے جاتے۔ حوثیوں کے پاس صرف حملہ آور ڈرون ہیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن یہ ڈرون کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔