وفاق اور پنجاب میں سیاسی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے۔یہ بات اس لئے کہنا پڑرہی ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کے مرکزی لیڈرز بھی اب سیاسی کشیدگی پر پریس کانفرنس کررہے ہیں اور پھر پنجاب میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جس سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ معاملہ واقعی نازک موڑ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز صوبے کے عوام کی ترقی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور وہ نئے منصوبے لگا بھی رہی ہیں۔ایک طرف تو مریم نواز خود میدان عمل میںاپنی ساری توانائی صرف کررہی ہیں جس کے کئی ایک واضح دلائل ہیں مگر جس طریقے سے پنجاب کے بیوروکریسی کو ان کا ساتھ دینا چاہیے اور فیڈ بیک دینی چاہیے شاید اس بات کا فقدان ہے۔یہاں کچھ سمجھدار بیوروکریٹس اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ترقیاتی کاموں یا عوامی مسائل کو کم کرنے کی جو ڈائریکشن سی ایم آفس کی طرف سے ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی۔بات کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیکرٹریٹ میں ایک سیکرٹری آئی اینڈ سی (امپلیمنٹیشن اینڈ کوآرڈی نیشن ) ہوتا ہے جس کا کام یہی ہوتا ہے کہ سی ایم آفس کی طرف سے ہدایات لیکر پورے صوبے کے سیکرٹریز ،کمشنر ،ڈپٹی کمشنرز اسسٹنٹ کمشنرز کو ہدایات دے اور کام کو ترجیحی بنیادوں پر کرواکر سی ایم آفس کو آگاہ کرے ۔ذرائع بتاتے ہیں کہ سی ایم آفس کی جانب سے ہدایات ہی بہت کم مل رہی ہیں۔اس وقت یہ آفس روٹین کے مطابق کام کررہا ہے اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کمشنرز اور ڈی سی حضرات کی کارکردگی کے انڈیکیٹر کو بڑھا دیا گیا پہلے کارکردگی بہتر بنانے کے لئے نو پوائنٹس انڈیکیٹرز ہوتے تھے جس کو اب بڑھا کر اکتیس کردیا گیا ہے۔یہ انڈیکیٹر ز مہنگائی کنٹرول کرنا،سستی روٹی پر عملدرآمد کروانا،قبضہ چھڑوانا،صحت ،تعلیم سمیت دیگر ایشوز اور پراجیکٹس کو بروقت مکمل کروانا ہوتا ہے جس کو موجودہ صورت حال میں پرفارم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس وجہ سے متعلق اضلاع کے اندر انتظامی دباؤ تو برقرار ہے۔پنجاب کے اندر سیاسی ہیجان کی وجہ سے پنجاب کا پارلیمانی اجلاس بھی ایک دفعہ ہی ہوا ہے جس کی وجہ سے ایم پی ایز بھی دبے دبے الفاظ میں گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں کہ پارلیمانی اجلاس ہر ماہ میں ایک بار ضرور ہونا چاہیے تاکہ ایم پی ایز کے مسائل کو فوری حل کی طرف لے جایا جائے اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ارد گرد حلقے کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اور خود وزیراعلی پنجاب کو چاہیے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ میں ایک بار ضرور کریں اور پورے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے لیے سیکرٹری آئی اینڈ سی کو زیادہ سے زیادہ ہدایات دیکر ان سے کام کروایا جائے۔
دوسری جانب اپوزیشن پنجاب اسمبلی بھی گلے شکوے کے ڈھیر لگا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں کارنر کیا جارہا ہے اور اپوزیشن اراکین کے ساتھ زیادتیوں کا بازار گرم ہے گیارہ ممبران پنجاب اسمبلی کو معطل کیا گیا ہے اپوزیشن لیڈر سے چیمبر گاڑی سٹاف اور دیگر سہولیات واپس لے لی گئیں ہیں۔ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد بھچر نے کہا ہے کہ سپیکر صاحب اپنے ناجائز اختیارات کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ ملک احمد بھچر کا کہنا تھا کہ آپ ہمارے بندوں اور لیڈر کو ناجائز مقدمات میں گرفتار کرتے ہیں، اپ خود 18کروڑ کی گاڑیاں لے رہے ہیں،اپوزیشن کے چیمبرز بند کررہے ہیں۔ملک احمد بھچر نے کہا کہ سپیکر صاحب آپ اپنے ناجائز اختیارات کا بھرپور استعمال کررہے ہیں، آپ کسی کی خوشی کیلئے اپنی شخصیت کو کیوں داغدار کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئی ایم پی اے ٹی اے ڈی اے لینے نہیں گیا، آپ پچھلی تمام حاضریاں نکلوائیں، ہمارے 11 اراکین اسمبلی کو بغیر نوٹس معطل کردیا گیا، ہماری جمہوری جماعت ہے اپنی ٹیم کے بغیر نہیں چل سکتا۔اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی اور ایم پی ایز کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا اختیار رکھتے ہیں، ہم عدالتوں کے دروازے پر دستک دیں گے۔