مخصوص نشستیں: آئین اور قومی اسمبلی کے توازن کا سوال

Jul 25, 2024

سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ناصرف سیاسی منظر نامے پہ اسکے گہرے اثرات مرتب ہونگے بلکہ اس پر عملدرآمد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے عملدرآمد کے فیصلے کے بعد بھی صورتحال ابہام کا شکار نظر آرہی ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی پاکستان مسلم ن کے بعد مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی ہے۔عدالت عظمی میں دائر ان درخواستوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حکومتی اتحاد کو ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔لیکن حکومتی اتحاد اس پر آئندہ دنوں میں پارلیمنٹ کے ہونے والے اجلاس میں اس پر سیر حاصل گفتگو اور تقاریر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر ن لیگ کی 3 خواتین ارکان نے نظرثانی اپیلیں دائر کی ہیں سپریم کورٹ میں ن لیگ  کی جانب سے نظرثانی اپیل ہما اختر چغتائی، ماہ جبین عباسی اور سیدہ آمنہ بتول نے دائر کی۔ نظرثانی اپیل میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہینظر ثانی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کا مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہ کرانا تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ پورا کیس سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق تھا۔ اپنی مرضی سے سنی اتحاد کونسل میں جانے والے 41 ارکان کو پارٹی تبدیل کرنے کیلئے 15 دن دینا آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون میں طے کردہ اصول سے ہٹ کر نیا طریقہ نہیں اپنایا جا سکتا ہے۔ اکثریتی فیصلہ آئین کے تحت نہیں ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ 12 جولائی کے مختصر اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کردی ہے
پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک نے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی دائر کی ہے جس میں فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے.پیپلز پارٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر اصل تنازعہ پر مکمل خاموش ہے، عدالت کا 12 جولائی کا آرڈر آئین کی تشریح کے اصول کے منافی ہے، عدالتی فائینڈنگ سنی اتحاد کونسل و فریقین کی گزارشات کے برعکس ہیں، سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں۔پیپلز پارٹی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں 41 ارکان کو 15 دن کی مہلت آئین و قانون سے متصادم ہے، سنی اتحاد کونسل کے 80 ارکان میں سے کوئی عدالت کے سامنے نہیں آیا، تحریک انصاف کسی فورم پر پارٹی تھی ہی نہیں، 39 ارکان کو تحریک انصاف کا قرار دینا قابل نظر ثانی ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی پریکٹس اینڈ پروسیجز کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کمیٹی نے مخصوص نشستوں کے فیصلہ پر نظرثانی درخواستیں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعدستمبر میں سماعت کرنیکافیصلہ کیا ہے۔چیف جسٹس نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری طور پر نظر ثانی درخواست کو سماعت کیلئے مقرر نہ کیا گیا تو یہ ناانصافی ہوگی۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز کمیٹی کا 17واں اجلاس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا۔جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے شرکت کی بعد ازاں اجلاس کے نکات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔اجلاس میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر  نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا۔اجلاس کے نکات کے مطابق ججز نے کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری نہیں ہوا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اجلاس میں کہا بہت سے ججز گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں، ججز نے بیرون ملک بھی جانا ہے۔جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا حق آئین نے دیا ہے، ججز کے آرام اور آسانی کو نہیں آئین کو ترجیح دینی چاہیے، فوری طور پر نظرثانی کو سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا تو یہ نا انصافی ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے اقدام سے کسی کے حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے، تفصیلی فیصلے کے انتظار تک اسے نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے سے آئین اور قانون بے معنی ہو جائے گا۔
ججز کمیٹی نے 1-2 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں تعطیلات کے بعد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی منظوری دی جبکہ چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور رائے دی کہ گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کرکے نظرثانی سننی چاہیے۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نکات کے مطابق جسٹس منیب اختر نے رائے دی رولز میں عدالتی چھٹیوں کا اختیار موجود ہے اور نئے عدالتی سال کا آغاز اب ستمبر کے دوسرے ہفتے سے ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بار عدالتی چھٹیوں کا اعلان ہو جائے تو چھٹیاں منسوخ کرنے کی رولز میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت معاملہ جلدی کا ہو تو نظرثانی 15 دنوں میں سماعت کیلئے مقرر ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ15 دنوں میں نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ کی تو اکثریتی فیصلے میں دیے گئے پندرہ دنوں کی حد گزر جائے گی اور کیس ہی غیر موثر ہو جائے گا۔ میرے دو ساتھی ججز نے نظرثانی نہ سننے کی دو وجوہات بتائیں، ساتھی ججزنے رائے دی ہے کہ تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ یہ تفصیلی فیصلہ تو ان ہی 8 ججز نے ہی تحریر کرنا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے مشاورتی اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔’تاہم الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اگرسپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی نکتے پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی ’الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا۔ جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ کیونکہ ’پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں تھے۔ جس کے قانونی نتائج میں الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بیٹ کا نشان واپس کیا گیا۔’لہذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔کمیشن کا کہنا تھا کہ ’جن 39 ممبران قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا ایم این اے قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نے جمع نہیں کروایا تھا۔لہٰذا ریٹرننگ آفیسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیتے۔ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار کیا گیا ہے انہوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ پارٹی کی وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا۔لہذا ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں بڑا واضح کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی۔۔

مزیدخبریں