متعدد بار ان سطور میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ انگلستان کی ہر اس دیسی اور ولایتی سوشل محفل میں جہاں مجھے مدعو کیا جاتا ہے‘ اپنے عزیز وطن پاکستان کی امن و سلامتی و استحکام کیلئے خصوصی دعا مانگنے کو میں نے اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے تاہم دکھ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کسی گورے‘ گوری کے پاکستان کے بارے میں کئے منفی سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سوال کا جواب دینے کا مرحلہ آتا ہے۔ میری بھرپور کوشش رہتی ہے کہ پاکستانی سیاست کے بجائے اپنی برطانوی سیاست کے ان دقیق پہلوئوں کو اجاگر کروں جن سے ہماری یہاں پروان چڑھنے والی نئی نسل استفادہ کر سکے۔ مگر افسوس! اس سوچ کے باوجود میں اپنے وطن کے بارے میں ہر دوسرے چوتھے روز بعض سوشل میڈیا پر جاری ’’سینہ گزٹ‘‘ خبروں کا مقابلہ نہیں کر پاتا جس سے بعض اوقات غیرپاکستانیوں کی محافل میں مجھے ندامت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اگلے روز ایک مقامی ولایتی محفل میں جس میں برطانوی سیاست اور معاشرت کے کچھ ماہرین دوست بھی شامل تھے‘ پاکستان میں پائے جانے والے اقتصادی اور سیاسی بحران پر دوران اظہار خیال میری توجہ پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی حالیہ اس پریس کانفرنس کی جانب مبذول کروائی گئی جس میں انہوں نے تحریک انصاف پاکستان پر حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کے فیصلے کی خبر دیکر دنیا بھر میں پھیلے تحریک انصاف کے کارکنان کو ہی نہیں‘ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے بھی ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز کر دیا۔ برطانیہ میں پاکستانی سیاست کے حوالے سے پہلے یہاں کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں ناامیدی‘ تذبذب اور سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں مختلف رائے قائم ہے اس لئے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وزیر اطلاعات کے حوالے سے تحریک انصاف پر حکومت کی لگائی جانیوالی پابندی کی بنیادی وجوہات دوست کیوں جاننے کے متمنی ہیں۔
دوست کو میں نے بتایا کہ پابندی ابھی لگی نہیں‘ حکومت نے محض فیصلہ کیا ہے۔ پابندی کیلئے ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنا لازم ہے جو ابھی دائر نہیں ہوا جبکہ وزیر اطلاعات نے کولیشن پارٹنرز کی اس بارے میں رائے کی وضاحت بھی نہیں کی۔ اس لئے تحریک انصاف پر حکومتی پابندی کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
مگر کولیشن پارٹنرز نے پابندی لگانے یا پابندی نہ لگانے کا فیصلہ ہی نہیں دیا تو وزیر اطلاعات صاحب کی پریس کانفرنس میں اتنا بڑا اعلان کرنے کی پھر کیا ضرورت تھی؟ دوست نے سوال کیا۔
سوال میں واقعی دم تھا۔ ہماری پاکستانی سیاست میں ایسے اقدامات زیادہ حیران کن اس لئے بھی نہیں کہ Minister Westسیاست کا ہمارے سیاست دان رول ماڈل تو حاصل کر چکے ہیں مگر مجموعی طور پر جمہوریت اور سیاست میں بدستور زیرتربیت ہیں۔ ہماری قومی سیاست میں سورج طلوع سے سورج غروب ہونے تک کیا سے کیا ہو جائے‘ قوم کیلئے یہ قطعی حیران کن بات نہیں۔ اب دیکھیں ناں! کہ ایک طرف تو وزیر اطلاعات تارڑ صاحب نے حکومت کے متوقع فیصلے کے بارے میں عوام کو فٹافٹ آگہی دے ددی اور دوسری جانب اسی حکومت کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار صاحب نے بغیر وقت ضائع کئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے فرما دیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس معاملے کو سب سے پہلے لیڈر شپ دیکھے گی اسکے بعد ہمارا اپنے اتحادیوں سے مشورہ ہوگا۔ فیصلہ جو بھی ہوگا قانون اور آئین کے عین مطابق ہوگا۔ اسی طرح وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب کا مبینہ طور پر یہ بیان سامنے آیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل تمام جماعتوں سے منظوری لی جائیگی۔ اب ایسے حالات میں کسی بھی وزیر‘ مشیر کے خیالات کو حتمی شکل کیسے دی جائے؟ میں نے دوست کو وضاحت پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں کسی بھی سیاسی پارٹی پر فوری پابندی لگانے کا بھی ایک آئینی اور قانونی طریقہ کار موجود ہے مگر افسوس! پاکستان میں ہونیوالے حالیہ قومی انتخابات پر دیگر متعدد یورپی ممالک سمیت برطانیہ اور امریکہ مبینہ طور پر ہنوز تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد ہونے سے قبل ہی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر امریکہ کی جانب سے کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی پر اظہار تشویش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف ہے۔ اب ایسے حالات میں کسی بھی ترقی پذیر جمہوری ملک کے سیاسی ڈھانچے پر فوری بات آپ کیسے کر سکتے ہیں۔ میں نے دوست سے اجازت لیتے ہوئے کہا۔ ایسے دوستوں سے ہونیوالی سیاسی اور نیم سیاسی ملاقاتوں کا ان سطور میں تذکرہ کرنے کا بنیادی مقصد اپنے وطن عزیز کا دفاعی‘ سیاسی اور تعلیمی نقطہ نگر آپ تک پہنچانا ہوتا ہے۔ حکومت کسی پارٹی کی بھی ہو‘ مگر ہمارے اراکین پارلیمنٹ‘ وزیروں‘ مشیروں کو یہ نقطہ ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ حکومتی سطح پر توثیق سے قبل کسی بھی متوقع فیصلے کو اس وقت تک میڈیا میں نہ لایا جائے جب تک حکومت اور پارلیمنٹ حتمی منظوری نہ دے دے۔ اس عمل سے ملکی اور قومی مسائل قدرے کم ہو سکتے ہیں۔