نیل کھیت ناول یا تاریخ کانچوڑ

آج کل بنگلہ دیش خصوصاً ڈھاکہ کی سیاسی صورتحال کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے طلباء مسلسل سرکاری کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں یہ کوٹہ سسٹم کیا ہے بنگلادیش میں 1971ء کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ ہے اس کے خلاف گزشتہ کئی روز سے طلبہ کا احتجاج جاری ہے اورکوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی پولیس اور حکمراں جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ سے جھڑپیں ہورہی ہیں پچھلے ہفتے سے جاری ان مظاہروں میں اب تک اموات کی تعداد 114ہوگئی ہے اب کرفیو لگا ہے۔ادھر پاکستانی طلباء کے والدین سارک کوٹہ کے تحت بنگلہ دیش کے مختلف میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم بچوں کیلئے فکر مند ہے اور وزیراعظم شہباز شریف سے مدد کی اپیل کی ہے۔
تو حال ہی میں ناول نگار ریٹارئرڈ کیپٹن بشیر احمد خان عباسی کاناول نیل کھیت پڑھا یوں محسوس ہوا جیسے مصنف کو ان حالات کی پیشگی اطلاع تھی اصل میں ناول کی کہانی مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے عین پہلے کی ڈھاکہ یونیورسٹی اور 1971ء میں لڑی جانیوالی جنگ کے پس منظر میں ایسے کرداروں کی دلچسپ اور تجسس سے بھرپور داستان ہے مکمل ناول پڑھ کر یوں لگاجیسا انتہائی مستند تاریخ کو قلم بند کیا گیاہے۔
ادب میں ایسی کہانیاں ہمیں ملتی ہیں جو صرف ایک فرد کی زندگی کو نہیں بلکہ ایک پورے دور کی عکاسی کرتی ہیں۔ ’’نیل کھیت‘‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو نہ صرف 1971ء کی جنگ کی ہولناکیوں کو پیش کرتی ہے بلکہ انسانی عزم و ہمت کا بھی خوبصورت بیان ہے۔ ناول کا مرکزی کردار صوم و صلوٰۃ کے پابند ایک نوجوان لڑکا عاویز کے گرد گھومتا ہے ان کا سفر ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے شروع ہوتا ہے جو اس کی علمی جدوجہد اور معاشرتی خوابوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ پہلے دن مغربی پاکستان سے ڈھاکہ یونیورسٹی جب پہنچتا ہے تو اردو زبان میں ایک لڑکے سے سوال پوچھتا ہے جس پر اسے جواب ملتا ہے بنگلا بھاشابولن بنگلا! یعنی بنگالی زبان میں بات کرو۔بہر حال وقت گزرتا گیا ایک دن خالی پیریڈ میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسرصاحب سے ملکی سیاسی حالات پر بات چیت کا انھیں موقع ملا تو استاد نے فرمایا کہ ملک میں جو اس وقت سیاسی عدم استحکام ہے اس کے ذمہ دار خود غرض اور دونوں صوبوں کے نااہل سیاست دان ہیں۔ ملک ہمیشہ سیاست دان چلاتے ہیں نہ کہ ملک کی فوج۔ ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی ہے کہ جہنوں نے فوجی ڈکٹیرشپ کو حکومت سنبھالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔پروفیسرصاحب نے مذید فرمایا کہ موجودہ حکمران اگر ملک سے مخلص ہیں تو فوری طور شفاف الیکشن کروا دیں جو جیتیں اقتدار ان ہی کے حوالہ کیا جائے پھر منتخب اسمبلی ملک چلانے کا فیصلہ کرے۔(یہ 1968ء کازمانہ تھا)پاکستان بنے اکیس سال کا عرصہ گزرگیااس عرصے میں زیادہ ملک کی سربراہی مغربی پاکستان کے پاس رہی۔ حسین شہید سہروردی،خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ ان تینوں کا مجموعی عرصہ حکومت تقریباً تین سال ہوگا۔افواج میں نوے فیصد جوانوں اور آفیسرز کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے یہی صورت حال بیوروکریسی میں ہے۔یہاں سے چاول اور پٹ سن کی قیمتی برآمدات ہوتی ہیں جن کی آمدنی وہاں کپاس گندم یا کھیلوں کے سامان سے ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے لیکن بجٹ کا زیادہ حصہ وہاں خرچ ہوتا ہے۔پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد کا انفراسٹرکچر راتوں رات تیار ہوگیا جبکہ ڈھاکہ نیشنل اسمبلی ہال کافی عرصے سے پایہ تکمیل کے انتظار میں ہے ایک بنگالی سیاست دان نے جب اسلام آباد دیکھا تو طنزاً کہنے لگا کہ وہاں کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آرہی ہے۔عرض عاویز کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا۔وقت گزرتاگیا۔
یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدیہ نوجوان فوج میں 47پی ایم اے لانگ کورس میں آفیسر منتخب ہواکاکول میں انھیں سخت تربیت کے بعدجہاں اسے قومی دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی اور ان کی پوسٹنگ مشرقی پاکستان کی گئی۔ یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جو نہ صرف اس کی پیشہ ورانہ زندگی کی علامت تھی بلکہ اس کے ذاتی نظریات اور عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔دسمبر1971ء کا سانحہ جو بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے طور پر جانا جاتا ہے اس روزجب اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے بنگالی اپنی فتح کا جشن مناررہے تھے تب ہی وہاں بنگلہ دیش میں رہنے والے کبھی خوشحال بہاریوں کیلئے ایک بد نصیب دور کاآغاز ہوگیا۔ عاویز جنگ کے دوران ایک فوجی افسر کے طور پر خدمات انجام دیتاتھاجنگ بھی ایساکہ پاک فوج کسی ایک طرف سے محفوظ نہ ہوسامنے انڈین آرمی پیچھے،دائیں بائیں سے مکتی باہنی حملہ آور ہوتے تھے جنگ زوروں پر تھی دشمن کے لڑکا طیارے فضاء سے بم گراتے توپ خانوں سے گولے داغے جاتے دشمن کی گولیاں سیدھی جوانوں اور افسروں کو نشانہ بناتی۔ عاویز کی رجمنٹ کے بھی دشمن کے ساتھ لڑتے لڑتے اکثر ساتھی شہید ہوگئے یا شدید زخمی ہوگئے عاویز بھی زخمی ہوا۔ انھیں کلکتہ کے ایک پرانے ہسپتال میں علاج کیلئے لایاگیا۔اس موقع پر اس کی زندگی کی مشکلات اور آزمائشیں عروج پر تھیں۔ لیکن ایک عظیم اور دلیر انسان کی طرح وہ دوران علاج ہسپتال سے فرار ہو کر آزادی کی طرف گامزن ہوا۔’’نیل کھیت‘‘ ہمیں بتاتا ہے کہ جنگیں صرف لڑی نہیں جاتیں بلکہ یہ انسانی جذبات، عزم اور امیدوں کا بھی معرکہ ہوتی ہیں۔ یہ ناول ایک ایسے دور کی عکاسی کرتا ہے جس میں انسانیت اور وطن پرستی کے جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ مصنف نے اس کہانی کے ذریعے نہ صرف ایک تاریخی سچے لمحات کو زندہ کیا ہے بلکہ ایک فرد کی عظمت اور حوصلے کو بھی اجاگر کیا ہے۔
یہ ناول نہ صرف میرے لئے ادب کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے بلکہ ہمارے قومی تاریخ کے ایک اہم حصے کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ ’’نیل کھیت‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر قاری کے دل کو چھو لیتی ہے اور اسے اپنے ماضی اور قومی شناخت پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسے ہر محب وطن شہری کو پڑھنا چاہیے خوبصورت ٹائٹل پیج کے ساتھ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہورکے چیئرمین علامہ عبد الستار عاصم نے طباعت کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن