سابقہ حکمرانوں کی ودیعت کردہ نجی تھرمل پاور کمپنیوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرتے اور قومی خزانے پر دیدہ دلیرانہ ڈاکہ مارتے ہوئے اس ملکِ خداداد میں جو حشر اٹھایا ہے جس کی سزا راندۂ درگاہ عوام کو خودکشیوں، اپنے پیاروں کے اپنے ہی ہاتھوں قتل اور دوسرے جرائم کی جانب دھکیلنے والے بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے، اس کی بنیاد پر ہمارے سماجی کلچر کو ناہموار کرنے والے مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کو تو کڑے احتساب سے گزارنے کی ضرورت ہے۔ مگر حضور! یہی سارے طبقات تو منتخب ایوانوں اور اقتدار کی راہداریوں میں آزادانہ مٹر گشت کرتے ہوئے خود کو قانون سے مبرّا ٹھہرا لیتے ہیں اور اپنی مراعات پر کوئی زد نہیں پڑنے دیتے۔ آج سوشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آئی پی پیز کی لوٹ مار تزکرے ہو رہے ہیں اور ان نجی پاور کمپنیوں کے کئے گئے معاہدے ختم کرنے کے تقاضے کئے جارہے ہیں تو بھی کیا ان مراعات یافتہ طبقات کو اپنے مستقبل کی کوئی فکر لاحق ہوئی ہے؟ کیوں ہو گی بھلا کہ یہی تو قانون بنانے، اس سے استفادہ کرنے اور قانون توڑنے والے ہیں۔ آپ عام آدمی اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کیلئے صرف قانون اور انصاف کے الگ الگ ہونے کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب آپ کو سیاست چمکانا ہوتی ہے مگر ذرا اس بات کا بھی تو جائزہ لے لیجئے کہ بے وسیلہ عام عوام کا کس شعبہ میں کوئی پرسان حال ہے؟۔ انصاف کے ایوانوں میں تو وسائل نہ ہونے کے باعث کسی مظلوم عام آدمی کی رسائی ہی نہیں ہو پاتی۔ کورٹ فیس اور وکیل کی تمام لوازمات سمیت فیس کے علاوہ کیس کو فکس کرانے کیلئے متعلقہ عدالتی اہلکار کی مٹھی گرم کرنے کے ایسے کٹھن مراحل ہیں جو کوئی غریب آدمی حصول انصاف کیلئے طے کرنے کا یارا ہی نہیں رکھتا۔ باوسیلہ مراعات یافتہ اشرافیہ اور حکمران طبقات کیلئے انصاف اسی لئے ان کی جیب کی گھڑی بن جاتا ہے کہ مہنگے وکیل سے لوئر عدالتی سٹاف کے ساتھ ساز باز تک کے سارے مراحل طے کرنے میں انہیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ حضور! عدلیہ نے تو اپنے روبرو زیر سماعت کسی مقدمے کا متعلقہ قانون‘ آئین‘ دستیاب حقائق و شواہد کی بنیاد پر اور کیس کے میرٹ کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس کیلئے یقینا بااختیار اور باوسیلہ طبقات کے پاس بے وسیلہ عام آدمی کی نسبت زیادہ مواقع ہوتے ہیں جن کے مہنگے وکیل کیس کا میرٹ بھی بنا لیتے ہیں‘ مضبوط ایف آئی آر بھی کٹوا لیتے ہیں اور اپنے مؤقف کے حق میں ثبوت اور شواہد بھی اکٹھے کر لیتے ہیں۔ عام آدمی تو ایسی سہولت کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کیلئے پہلے تو عدالت تک رسائی حاصل کرنا ہی محال ہوتا ہے‘ اگر کسی وسیلے سے رسائی ممکن ہو جائے تو دوسرے لوازمات پورے کرتے کرتے وہ ویسے ہی نڈھال ہو جاتا ہے۔ سوجناب! یہ دہرے قانون کا نہیں‘ قانون کی عملداری کا سوال ہے۔ قانون تو سب کیلئے ایک ہی ہوتا ہے۔ ڈنڈی صرف قانون کی عملداری پر ماری جاتی ہے۔ اس لئے سب کیلئے ایک ہی قانون اور ایک ہی انصاف کا تقاضا عدلیہ سے نہیں‘ عدلیہ کو فراہمی انصاف کے لوازمات فراہم کرنے کے ذمہ داروں سے کیا جانا چاہئے۔ پھر آپ کا سوال توخود آپ ہی سے بنتا ہے۔ آپ کو یکساں قانون اور یکساں انصاف کا ہی نہیں‘ اور بھی بہت سے دوسرے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ حضور! زندگی کے کس شعبے میں عام آدمی کی شنوائی اور پذیرائی ہوتی ہے۔ آئین پاکستان نے تو ریاست کے ہر شہری کی مساوی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ ہر شہری کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور انصاف کی بلا روک ٹوک اور بلا امتیاز فراہمی‘ ریاست کی ذمہ داری گردانا ہے۔ پھر خدا لگتی کہئے‘ ریاست اپنی یہ ذمہ داری عام آدمی کیلئے کب اور کہاں تک نبھاتی ہے۔ ظاہر ہے ریاست کوئی جاندار چیز تو نہیں۔ اس کے نام پر حکومت وقت نے ہی اپنی انتظامی مشینری کے ذریعے شہریوں کی سہولتوں کیلئے ریاستی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں شہریوں کیلئے انصاف کی فراہمی صرف عدلیہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر ریاستی آئینی اور قانونی ادارے نے ملک کے تمام شہریوں کو انصاف کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوتے ہیں اور انصاف صرف کسی فوجداری‘ کمرشل اور سول مقدمے سے متعلق نہیں ہوتا۔ شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کے تحت روزگار دینا بھی عوام کے ساتھ انصاف ہے۔ صحت کی سہولتیں بھی بلا ردوکد فراہم کرنا شہریوں کے ساتھ انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔ امن و آشتی والا فلاحی معاشرہ فراہم کرنا بھی جناب قانون و انصاف کی عملداری ہی کا حصہ ہے۔ ملک کی ترقی و استحکام اور عوام کی خوشحالی کی بنیاد مضبوط بنانا بھی شہریوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے نبھانے کے ہی مترادف ہے۔
پھر آپ ادارہ جاتی کارکردگی کا جائزہ لے لیجئے۔ پبلک ڈیلنگ میں عدلیہ کے علاوہ محکمہ پولیس‘ محکمہ تعلیم‘ محکمہ مالیات (ایف بی آر)‘ محکمہ صحت غرض کسی بھی محکمے میں بے وسیلہ عام آدمی کی میرٹ پر شنوائی ہو رہی ہے؟ کہاں ہر شہری کی عزت نفس کی پاسداری کی جاتی ہے‘ کہاں شرف انسانیت کے تقاضے نبھائے جاتے ہیں اور کہاں کسی شہری کا جائز کام بھی بغیر کسی رکاوٹ کے خوش دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔ ان محکموں میں اپنے کسی بھی معاملہ میں شہریوں کو منیر نیازی کے اس شعر کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
درحقیقت کاہلی‘ بدنیتی‘ خیانت اور رشوت خوری ہمارے کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ آپ اس میں سے صرف ایک عنصر رشوت خوری کو لیکر طوفان اٹھانے چل پڑیں اور دوسری معاشرتی قباحتیں دور کرنے کی جانب توجہ ہی نہ دیں تو ریاست مدینہ کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ریاست مدینہ میں تو شرف انسانیت کو فوقیت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں بالخصوص حکومتی سطح پر کس نے کس حد تک شرف انسانیت کے تقاضے پورے کئے ہیں؟ اوروں کو نصیحت‘خود میاں فصیحت کی مثال بن کر سسٹم اور معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھانا زبانی جمع خرچ کی حد تک اور مخالفین پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے تو کارگر ہو سکتا ہے مگر یہ محض نعرے ہی رہتے ہیں۔ اس سے راندۂ درگاہ عوام کی عزت‘ عافیت اور آسودگی کا کوئی معاملہ نہیں بن سکتا۔
بدقسمتی ہے ہم آج ایسے ہی معاشرے میں زندہ ہیں اور زندہ درگور ہیں۔ حضور! عوام نے جن معاملات میں آپ پر اعتماد کا اظہار کیا اور آپ کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیا‘ آپ خود بھی تو ان معاملات پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔ عوام تو اپنے غربت‘ مہنگائی‘ روٹی روزگار کے مسائل کے فوری حل کیلئے‘ جو آپ کے بقول سابق حکمرانوں نے اپنی بے بہا کرپشنوں کے باعث عوام پر مسلط کئے ہیں‘ آپ پر اعتماد کرتے کرتے پھاوے ہو گئے ہیں، مایوس اور مضطرب ہوئے بیٹھے ہیں اور انہیں امید کی کوئی کرن دکھانے کے بجائے مایوسیوں کے دلدل کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ پھر اس سے بڑی ناانصافی عام عوام کے ساتھ بھلا کوئی اور ہو سکتی ہے کہ ان کے روزگار اور کاروبار بھی چھن گئے ہیں اور اس معاملہ میں انہیں مستقبل میں اپنے لئے کسی اچھے کی امید بھی نظر نہیں آرہی۔ جناب آج گفتار و کردار میں یکسیانیت پیدا کرنے اور ملک کے ہر شہری کو محض زبانی کلامی نہیں‘ عملی طورپر ہر شعبۂ زندگی میں آسودگی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تو بس ریاکاری ہی ریاکاری ہے۔ عوام ایسی سیاست کاری سے پہلے ہی عاجز آئے ہوئے ہیں۔ مزید عاجز آئیں گے تو صرف عدالتی نہیں‘ پورے سماجی‘ ریاستی اور حکومتی ڈھانچے سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ خدارا عام عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی روش ترک کردیں اور شرف انسانیت کو مقدم رکھیں ورنہ ہم زندہ معاشرے میں محض قبروں کے مجاور بن کر رہ جائیں گے۔