مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کی درخواست سپریم کورٹ کے فل بنچ نے مسترد تو کردی لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا اکثریتی فیصلہ دے دیا۔ اس فیصلے سے سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور فیصلہ آتے ہی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن نے بھی اپنے بیان میں حیرت کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے جس میں پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے مخصوص نشستیں مانگی ہی نہیں تھیں اور بغیر مانگے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ اس فیصلے سے حکومتی اتحاد ایوان میں دوتہائی اکثریت سے محروم ہوگیا اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آگئی۔ میرے خیال میں حکومت کی جانب سے جب یہ تجویز سامنے آئی کہ موجودہ چیف جسٹس کو آئینی ترمیم کرکے عہدے میں 2سال کی توسیع دی جائے تو اس وجہ سے ردعمل کے طور پر سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ فیصلہ دیا ہے۔ ماضی میں جن ججوں کے فیصلے حکومتی مفاد میں ہوتے تھے اب دیکھنے میں آیا ہے کہ انہوں نے بھی مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ بعد میں حکومت کی جانب سے اس ارادے کی یکسر تردید کردی گئی لیکن اس کاردعمل آنے کے بعد شاید دیر ہوچکی ہے۔
ملک میں مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے اور حکومتی اتحادی جماعتوں اور الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کو حیران کن قرار دیکر خلاف آئین قرار دیا ہے۔ حکمران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواستیں بھی دائر کر دی ہیں۔ بہرحال جو کچھ ملکی سیاست میں ہورہا ہے یہ اچھا نہیں ہورہا۔ اس سے پارلیمنٹ کا چلنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں جس سے جمہوری نظام کو لاحق خطرات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان ڈیڈلاک کی صورتحال ہے۔ سیاستدان آپس میں بات چیت نہیں کررہے۔ اپوزیشن کی جانب سے ہٹ دھرمی کے باعث سیاسی انتشار بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اگر اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دینا تھا تو حلف ہی نہ اٹھاتے اور سیاسی تحریک چلادیتے۔ جب پارلیمنٹ میں حلف اٹھالیا ہے تو پارلیمنٹ کو چلنے دینا چاہئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1977ء کے الیکشن میں اپوزیشن نے بھٹو صاحب پر دھاندلی کا الزام لگایا تو انہوں نے پارلیمنٹ میں حلف ہی نہیں اٹھایا اور نئے انتخابات کے مطالبے پر 9جماعتی اتحاد بناکر تحریک کا آغاز کردیا جو آگے چل کر نظام مصطفٰیﷺ کے نفاذ کی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی ڈیڈلاک تھا اور بات چیت نہیں ہورہی تھی جس کے باعث ملک کو شدید معاشی نقصانات ہورہے تھے۔ ملک بھر میں عوام سڑکوں پر تھے۔ اگر سیاستدان مل کر نئے الیکشن کا اعلان کردیتے تو ملک کو مارشل لاء سے بچاسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مارشل لاء لگنے سے ایک روز پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے وزیر کوثر نیازی اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق و دیگر ساتھیوں سمیت سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظربند اپوزیشن قیادت سے، جن میں ایئرمارشل اصغر خان‘ مفتی محمود‘ میاں طفیل اور پروفیسر غفور شامل تھے‘ مذاکرات کے لئے پہنچے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو اشارہ کیا کہ آپ بریفنگ دیں۔ آرمی چیف نے پاکستان کے نقشے پر اپنی فوجی چھڑی کے ساتھ ملک کی سرحدوں پر درپیش خطرا ت سے سیاستدانوں کو آگاہ کرنے کی بریفنگ کا آغاز کیا تو ایئر مارشل اصغر خان نے انہیں روک کر پوچھا کہ جنرل صاحب آپ ہمیں سرحدوں پر موجود خطرات سے کیوں آگاہ کر رہے ہیں؟ اگر اتنا خطرہ ہے تو آ پ کو اس وقت سرحدوں پر ہونا چاہئے تھا۔ یہ سیاستدانوں کی میٹنگ ہے ہم آپس میں مل کر مسائل حل کرلیں گے۔ سرحدوں پر سیاستدانوں نے جاکر نہیں لڑنا۔ ایئر مارشل اصغر خان کی یہ بات سن کر جنرل ضیاء الحق غصے میں وہاں سے چلے گئے۔ بعد میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور کابینہ اراکین بھی حیرت کے ماحول میں وہاں سے چلے گئے۔ پروفیسر غفور نے ایئرمارشل اصغر خان کو کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ جو چاہتے ہیں‘ وہ ہو جائے گا لیکن میں یہ نہیں چاہتا ہوں۔ اسی رات ملک میں مارشل لاء لگ گیا اور اگلے دن صبح دس بجے علم ہوا کہ مارشل لاء جنرل ضیاء الحق نے لگایا ہے۔ سننے میں آیا تھا کہ جنرل چشتی نے اسی رات جنرل ضیاء الحق کو کہا تھا کہ مارشل لاء لگادیں‘ اگر آپ نہیں لگائیں گے تو میں لگادوں گا۔مارشل لاء لگنے کے بعد ایئرمارشل اصغر خان کی پارٹی کے سوا اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کرلی جبکہ ایئرمارشل اصغر خان ضیاء الحق کے ابتدائی 5سال 3ماہ کے دور میں گھر میں نظربند رہے۔
اس واقعہ کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے سیاسی جماعتوں کے درمیان موجودہ ڈیڈلاک کی صورتحال سے مارشل لاء کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب بھی سیاسی جماعتیں نہ تو آپس میں بات چیت کر رہی ہیں اور نہ نئے الیکشن کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں تو ملک کے دفاع و سلامتی کے ذمہ دار ادارے کو مجبوراً ملک سنبھالنے کے لئے آئین میں دیئے گئے اختیارات کے تحت سامنے آنا پڑے گا۔ مجھے تو اکتوبر 1999ء یاد آرہا ہے جب ملک کے دہشت گرد اور ڈیفالٹر قرار دیئے جانے کی خبریں میڈیا میں آرہی تھیں تو جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں اعلٰی عدلیہ نے جنرل پرویز مشرف کو 3سال تک نہ صرف وردی میں حکومت کرنے کی اجازت دی تھی بلکہ آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا تھا۔ پھر تاریخ گواہ ہے کہ جنرل مشرف کے حکومت سنبھالنے کے ایک سال کے اندر ہی ملک معاشی استحکام سے ہمکنار ہوا اور مارک اپ کی شرح 24%سے کم ہوکر 4%ہوگئی تھی۔ ان کے دور حکومت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور ڈالر کی قیمت ایک سطح پر منجمد رہی۔ بجلی کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں تھی اور سی این جی ملک بھر میں گاڑیوں کو مل رہی تھی۔ ان کے دور حکومت میں اسٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور پی ایس او سالانہ اربوں روپے منافع کمارہے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ ملک بھر میں کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ امن و امان کی صورتحال بھی مثالی رہی اور ان کے پورے دور حکومت میں سندھ میں ایک اغواء برائے تاوان کا واقعہ رپورٹ ہوا کیونکہ ان کے دور حکومت میں تقرر‘ تبادلے اور ترقی کا معیار صرف میرٹ تھا۔انہوں نے ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو قبل ازوقت ادائیگیاں کرکے خیرباد کہہ دیا تھا۔