جمعرات ، 18  محرم الحرام   ،    1446ھ25 جولائی  2024ء

 گوجرانوالہ میں بجلی بل پر جھگڑا  ، بڑے نے چھوٹے بھائی کو قتل کر دیا۔ 
یہ نوبت تو اب آنی ہی تھی۔ کیونکہ بجلی کے بھاری بلوں نے تو اچھے بھلوں کی سوچنے کی سدھ بدھ ختم کر دی ہے۔ اب جو زیادہ حساس تھے وہ بے چارے بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں جو سفید پوش ہیں وہ گھریلو سامان فروخت کر کے بل جمع کرا رہے ہیں۔ باقی جو ذرا گرم مزاج اور غصیلے ہیں وہ مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ پہلے زن، زر  زمین کی وجہ سے بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا تھا۔اب بجلی بل کی وجہ سے بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ آخر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو خدا جانے آگے اور کتنے گھر اسی  سبب تباہ ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کو تو غریبوں پر ترس نہیں آ رہا۔ اب کون ان کے درد کا درماں کرے۔
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے 
مر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے۔
اب کیا عوام ازخود بجلی بل ادا کرنا بند کر دیں یا بجلی کا بل مانگنے والوں کو کورا جواب دے کر واپس کر دیں کہ جب تک حقیقی ریٹ پر بل نہیں آتے وہ بل جمع نہیں کرائیں گے۔ جب مرنا ہی ہے تو پھر ڈرنا کس بات سے۔ بل دیکھ کر قتل کرنے سے خود کشی کرنے سے بہتر ہے کہ بجلی کا استعمال ہی ترک کر دیا جائے ورنہ سڑکوں پر فیصلے ہونے لگے تو حکمران جانتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ ان کو بھی میدان سے بھاگنا پڑے گا۔ گرمی کی وجہ سے ویسے بھی دماغوں کا پارہ ہائی ہو چکا ہے بلکہ سچ کہیں تو خطرے کے نشان کو چْھو رہا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
بلوچستان اسمبلی میں وزیر داخلہ   علی محمد جتک اور مولانا ہدایت اللہ میں جھڑپ۔
اگر بات صرف ایک دوسرے کو کوسنے تک ہی رہتی تو مسئلہ نہ ہوتا۔ مگر یہاں تو تھڑے والی سیاست سامنے آئی جہاں فریق ایک دوسرے کو مارنے دوڑ پڑتے ہیں اور نت نئے القابات سے ایک دوسرے کو نوازتے ہیں۔ بات یہاں تک  ہی ر ہتی  تو ٹھیک تھی کہ
 غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
والی بات رہتی۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ علی محمد جتک اور ممبر اسمبلی مولانا ہدایت اللہ نے بچوں کی طرح لڑتے ہوئے پوری اسمبلی کو ان کا بچپن یاد دلا دیا کہ جب وہ بچے تھے تو کس طرح لڑتے جھگڑتے تھے ۔ بات چلی تھی  خواتین  کے مسائل  اورشہر میں لگے ایک جہازی سائز کے پوسٹر کے حوالے سے۔ مولانا ہدایت اللہ نے  بات کی کیونکہ  اس سے دوسرے لسانی گروپ کو پریشانی ہو رہی تھی۔ پوسٹر میں بلوچ قوم پرست ہلاک شدگان کی تصاویر اور نعرے درج تھے۔ مولانا کا خیال تھا اسے ہٹایا جائے کیونکہ وہ دوسروں کے اکثریتی علاقے میں لگانا درست نہیں۔ بس اس بات پر وزیر داخلہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے دھمکی دی کہ اگر یہ پوسٹر ہٹایا گیا تو مولانا  کا سریاب روڈ سے گزرنا
محال کر دیں گے۔ اس پر بات بڑھی اور دیگر ارکان اسمبلی نے بڑی مشکل سے دونوں کو علیحدہ کیا۔ مگر معاملہ قابو میں نہ آنے پر سپیکر کے کہنے پر سارجنٹ ایٹ آرمز نے مداخلت کی تو مولانا ازخود وہاں سے باہر نکل  گئے۔ 
٭٭٭٭٭
 پار ٹی  اجلاس میں پولیس کے سوا جس ادارے نے مداخلت کی اس کے خلاف احتجاج کا فیصلہ ہوا تھا۔وکیل  پی ٹی آئی۔
حیرت کی بات ہے۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ گاڑیاں پولیس کی جلائی گئیں۔  درجنوں پولیس اہلکاروں کو شدید زد و کوب کیا گیا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت تھی کہ 9 مئی کو پولیس کے علاوہ جو بھی احتجاج میں مداخلت کرے گا اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عام بسیں ، گاڑیاں، ریڈیو سٹیشن تک جلایا گیا۔ کیا انہوں نے بھی رکاوٹ ڈالی تھی۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ پولیس کے علاوہ جو بھی ادارہ ہوا اس کے دفتر کے باہر احتجاج کا فیصلہ ہوا تھا۔ خواہ وہ جی ایچ کیو ہی کیوں نہ ہو۔ اب جی ایچ کیو تو سمجھ میں آ رہا ہے۔ یہ قائد اعظم ہائوس کس کھاتے میں آتا ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ اسے لوٹا تباہ کیوں کیا گیا جلایا کس نے۔ اب اگر فیصلہ پارٹی نے کیا تھا تو خود بانی پی ٹی آئی کیوں کہہ رہے ہیں کہ حکم میں نے دیا تھا پْرامن احتجاج کا۔ یہ کہانی کا کون سا موڑ ہے۔ اس سے تو خود بانی اور پارٹی کا دامن کانٹوں میں الجھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ 
کیونکہ یہ تو…
اْلجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں 
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔
   اب تو خود پارٹی کارکن بھی حیران ہیں کہ کس بات کو درست قرار دیں اور کس کو غلط کیونکہ یہ تو الزام تسلیم کرنے کی بات ہے۔ بانی مان رہا ہے کہ پرامن احتجاج کا کہا تھا۔ پارٹی رہنما کہہ رہے ہیں ہر ادارے کے دفتر کے خلاف احتجاج کی کال تھی۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا آج سب  جان چھڑانے کی کوشش میں مصروف ہیں ہاں البتہ عدالت آتے جاتے وکٹری کا نشان بنانا نہیں بھولتے اور جو گرفتار ہیں ان کو اپنا قابل فخر سرمایہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ عجب صورتحال ہے۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا معاملہ ہے۔ دیکھتے ہیں آگے جا کر یہ کیا رنگ دکھاتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
دبئی میں متعدد بنگالی مظاہرہ کرنے پر گرفتار۔
یہ ہوتی ہے قانون کی  عملداری۔ ہماری طرح اور کہیں یہ نہیں ہوتا کہ دوسرے ملک کے تارکین جو چاہے کرتے پھریں۔ بدمعاشی کریں ، ڈکیتیاں ماریں ، قتل اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہوں۔ مگر ہم خاموش رہتے ہیں کہ اپنے بھائی ہیں برادر ملک سے آئے ہیں۔ یوں قانون شکن عناصر کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ شیر ہو جاتے ہیں مگر دیکھ لیں دبئی میں بنگالی مزدور محنت کش نے اپنے ملک میں ہونے والے مظاہروں اور ان میں ہلاک ہونے والوں کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے کہ دھر لیے گئے اب ان میں سے اکثر کو طویل عرصہ جیل کی روٹی کھانا ہو گی جو مفت ہے۔ شکر کریں۔ یہ اپنے ملک میں ہوتے تو چکی بھی پیسنی پڑتی جو کم از کم دبئی کی جیلوں میں نہیں۔ اس کے علاوہ گرفتاری سے جیل تک جو پولیس تشدد ہوتا اس کے تو ذکر سے ہی جھرجھری آتی ہے۔ بنگلہ دیش میں دیکھ لیں حکومت نے کس بے دردی سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے روکے۔ اس کے جواب میں ظاہر بات ہے بنگلہ دیش کے شہری بھی پریشان ہوئے ہوں گے اور انہوں نے حکومت کیخلاف مظاہرے کئے۔ عرب ممالک میں قانون سخت ہے۔ یہی وجہ ہے فوری فیصلہ ہوا۔ مگر دیکھ لیں ہمارے ہاں افغان مہاجرین اور ان کے حامی کس طرح ہمارے ملک میں رہتے ہوئے اس کے خلاف ہی جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں اور ملک کے خلاف ہمارے اداروں کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اور کھلم کھلا افغانی پرچم لہراتے ہیں۔ مگر ہم صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ جس کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی تارکین کو ان کے اوقات میں رکھا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ جتنی آزادی ہمارے ہاں ہے دنیا میں کہیں اور نہیں۔ اسی لیے ہمارے ہاں آنے والے مہاجرین سر چڑھ جاتے ہیں اور پھر انہیں اتارنا مشکل ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن