وارث نبوت ، چراغ امت ، سید مظلوم حضرت سیدنا امام زین العابدین بن حسین رضی اللہ تعالی عنھما آپ اپنے زمانے کے بہت بڑے عابد اور سب سے معزز تھے۔ آپؓ واقعہ کربلا کے وقت امام عالی مقام امام حسینؓ کے ساتھ تھے لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے خیمے میں رہے۔ آپؓ حقائق کے بیان اور وقائق کے انکشاف و اظہار کے لیے مشہور تھے۔ آپؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ دنیا و آخرت میں سے زیادہ نیک بخت شخص کون ہو گا ؟ آپؓ نے فرمایا وہ جو راضی ہو تو باطل کی طرف نہ بھٹکے اور ناراض ہوتو حق کو نہ چھوڑے۔اور یہ صفت انہی لوگوں میں ہوتی ہے جو کمال کی استقامت رکھتے ہوں۔ کیونکہ باطل پر راضی ہونا بھی باطل ہے اور اسی طرح غصے کی حالت میں حق کو چھوڑ دینا بھی باطل ہے اور مومن تو کسی صورت بھی باطل کو اختیار نہیں کرے گا۔ جب آپؓ کو قیدی بناکر یزید کے سامنے لایا گیا تو کسی نے آپؓ سے پوچھا ’’اے علی اور رحمت کے گھرانے والو! آپ لوگوں کی صبح کیسی ہوئی۔ آپؓ نے فرمایا : ’’ہماری صبح یزید کے جو رو جفا سے اسی طرح ہوئی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کی قوم کی صبح فرعون کے ظلم سے ہوئی تھی۔ اِنہوں نے ہمارے بھائی بیٹوں کو شہید کر دیا اور عورتوں کو رہنے دیا ہمیں نہ اپنی صبح کی خبر ہے اور نہ ہی شام کی یہ ہمارے امتحان کی حقیقت ہے ‘‘۔ اور ہم ہر حال میں اللہ تعالی کی نعمتوں پر اس کا شکر اداکرتے ہیں اور اس کی آزمائش پر اس کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالمالک بن مروان حج کے لیے آیا خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس نے حجر اسود کو چومنے کی کوشش کی لیکن بہت زیادہ مجمعے کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکا اور پیچھے ہٹ گیا اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگا۔ حضرت امام زین العابدینؓ جب تشریف لائے آپؓ کا چہرہ انور چاند کی طرح روشن تھا۔ انہوں نے پہلے طواف کیا اور جب حجر اسود کو بوسہ دینے لگے تو لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا اور آپؓ نے حجر اسودکو بوسہ دیا۔ اہل شام میں سے ایک شخص نے ہشام سے کہا کہ تم بادشاہ ہو لیکن لوگوں نے تمہارے لیے راستہ خالی نہیں چھوڑا لیکن جیسے ہی یہ خوبصورت نوجوان آگے بڑھا تو لوگ ان کے لیے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہشام نے کہا کہ میں تو انہیں نہیں جانتا۔ہشام نے یہ اس لیے کہا کہ کہیں لوگ آپؓ کو پہچان کر آپؓکے گرودیدہ نہ ہو جائیں اور میری حکومت کے لیے خطرے کا باعث نہ بن جائیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)
Jul 25, 2024