سستی اور وافر بجلی کے بغیر برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں 

پاکستان کو اس وقت اقتصادی حوالے سے جن سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کی بنیادی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی اور گیس اتنی مہنگی ہے کہ ان کی مدد سے مصنوعات تیار کر کے کم قیمت پر بیچنا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں صورتحال ایسی نہیں ہے اور وہاں بجلی اور گیس کی قیمتیں کم رکھ کر سرمایہ کاروں کو سہولت دی جاتی ہے تاکہ وہ ملکی برآمدات اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے معاون ثابت ہوں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں تشکیل پانے والی حکومتیں اس بنیادی نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور ان کا بوجھ ملک اور عوام دونوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں دعوے تو بہت سے کیے جاتے ہیں لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور جب تک ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک یہ ممکن نہیں کہ ہم سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف مائل اور ملک کے اقتصادی مسائل کو باقاعدہ طور پر حل کر سکیں۔ اب اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف معاملات کو سدھارنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
وزیراعظم نے ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت تجارت و متعلقہ ادارے آئندہ تین برس میں اس ہدف کے لیے عملی اقدامات کریں۔ الحمدللہ گزشتہ مالی سال ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں، حکومتی پالیسیوں کی بدولت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات 3.2 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں، پاکستان کی ترقی کے لیے سب کو محنت کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کے لیے بجلی کی لاگت کو کم کرنے کے لیے وزارت بجلی ایک جامع منصوبہ پیش کرے۔ دنیا بھر میں نجی شعبہ کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، نجی شعبے کے مسائل کے حل کے لیے انھیں پالیسی کی تشکیل کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت قومی ترقی برآمدات بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزراء اور متعلقہ افسران کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف شعبوں بشمول ٹیکسٹائل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، لیدر، زراعت سے تعلق رکھنے والے برآمد کنندگان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کو حکومت کی جانب سے برآمدی صنعت کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان کی رواں برس برآمدات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اس کو دو گنا کرنے کے لیے آئندہ پانچ برس کا منصوبہ پیش کیا گیا۔
برآمدی صنعتوں کے نمائندوں نے اجلاس میں وزیراعظم کو مسائل کے حل کے لیے تسلسل سے ملاقاتوں پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ شرکاء￿  نے کہا کہ شہباز شریف کی برآمدی شعبے میں خصوصی دلچسپی صنعتکاروں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ برآمد کنندگان نے وزیراعظم کے برآمدی صنعت کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے بروقت ریفنڈز کی فراہمی کے اقدام کی تعریف بھی کی۔ اس موقع پر  شہباز شریف نے ہدایت کی کہ برآمد کنندگان کے نشاندہی کردہ مسائل کو آئندہ دو ہفتے میں حل کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر ڈیڑھ ماہ بعد قومی ترقیِ برآمدات بورڈ کے اجلاس کی بذات خود صدارت کروں گا، پاکستان کی ترقی کے لیے سب کو محنت کرنا ہے۔ مشکل حالات کے باوجود پاکستان کی برآمدات بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے والی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مزید ہدایات دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وزارت تجارت برآمدات کی استعداد رکھنے والے شعبوں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر پالیسی تجاویز کو حتمی شکل دے جبکہ زرعی برآمدات میں مزید اضافے کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ صوبوں کے ساتھ مل کر ایکسٹینشن سروسز کی بہتری کے لیے کام کرے، معیاری بیج اور زرعی اجناس کی مزید پراسیسنگ کرکے ان کی برآمد یقینی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے ہدایت دی کہ زرعی اجناس کی زیادہ پیداوار والی اقسام کو متعارف کرانے کے لیے اقدامات کو تیز کیا جائے، برآمدات کی شپنگ کے حوالے سے مسائل کو فوری حل کرکے یورپ و امریکا پاکستانی سامان کی ترسیل کا دورانیہ کم کیا جائے۔ وزارت تجارت سرمایہ کاری بورڈ سے چینی برآمدی صنعتوں کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے تعاون یقینی بنائے۔ برآمدات میں اضافے سے متعلق شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی اشیاء کی برآمدات میں اضافے اور ان کی منفرد پہچان بنانے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، جدت اور برانڈ ڈویلپمنٹ پر کام کیا جائے، ایف بی آر کی جانب سے برآمد کنندگان کے ریفنڈز میں کسی قسم کا تعطل قبول نہیں کیا جائے گا۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں ٹریڈ آفیسرز ان ممالک میں پاکستانی اشیاء کی برآمد اور پاکستانی برآمد کنندگان کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں۔
شہباز شریف تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جن اقدامات کے بارے میں فیصلے کر رہے ہیں وہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں لیکن جب تک ان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا تب تک اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ بحران ایک طرف عوام کو متاثر کر رہا ہے تو دوسری جانب صنعت کار اور سرمایہ دار بھی اس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اس بحران کی ذمہ دار نجی اور سرکاری پاور کمپنیوں کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ان کی طرف سے معاملات کے بگاڑ کا شکار ہونے کی وجہ سے ہی صورتحال بہتری کی جانب نہیں آ پا رہی۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ برآمدات کا فروغ معیشت کے استحکام کے لیے از حد ضروری ہے۔ صنعتیں چلیں گی تو پیداوار ہوگی لیکن یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب بجلی اور گیس کی کم نرخوں پر فراہمی ممکن بنائی جائے اور اس سلسلے میں حکومت نے سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن