زرداری سرکار اپنے نئے سال کے میزانیہ پر بہت ہی خوش و خرم ہے۔ میزانیہ کے اعلان کے فوراً بعد ہی صدر محترم بین الاقوامی دورے اور پھیرے پر روانہ ہو گئے۔ پاکستان کے سابق ملٹری صدر فارغ جنرل مشرف پاکستان کی جمہوریت میں صدر کے عہدہ کو اتنا مضبوط بنا گئے ہیں کہ وزیراعظم تو بس اسمبلی کا نگران لگتا ہے۔ صدر زرداری کی صدارت سابقہ ملٹری سرکار کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ دنیا میں دو ہی صدر بہت مضبوط نظر آتے ہیں۔ ایک امریکی صدر ہے۔ جس کی ملک سے باہر کم اور ملک کے اندر زیادہ کلاس لی جاتی ہے۔ ہمارے صدر کی کلاس باہر والے ہی لے سکتے ہیں۔ صدر زرداری کی پاکستان کی جنتا میں مقبولیت کا ایک پیمانہ ایس ایم ایس کی تعداد ہے جو ہمارے بے چارے عوام آئے دن ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے رہتے ہیں اور زیادہ قصیدہ صدر پاکستان کی شان میں ہوتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے نئے نوکور سنیٹر اور وزیر داخلہ نے فرمایا تھا کہ اگر ایس ایم ایس کی ایسی بھرمار رہی تو ان کی سرگار عوام کے بہترین مفاد میں اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے تناظر میں پابندی بھی لگا سکتی ہے۔ پابندی کی صورت میں صدر زرداری کی مقبولیت پر اثر پڑ سکتا تھا۔ سو ہمارے معاشی مشیر اور سابقہ بنکر شوکت ترین نے باہمی مشاورت سے معمولی اور کمتر درجہ کے ٹیکس
کے ذریعہ ایس ایم ایس کے پیغامات کو قابو کرنے کا دوررس علاج شروع کیا ہے۔ ہمارے خزانہ کے مشیر ایک سابقہ بنکر ہونے کے ناطے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے بہت ہی مداح ہیں۔ اگرچہ اس میزانیہ کا اعلان خزانہ کی چھوٹی وزیر حنا ربانی کھر نے کیا ہے۔ اس کیلئے اردو میں تقریر کرنا کچھ مشکل تھی۔ پہلے تقریر کو رومن انگریزی میں لکھوایا گیا پھر اس کی تیاری بھی کی گئی مگر اتنی تیاری کے باوجود ان کی بجٹ تقریر زیادہ اثر نہ دکھا سکی۔ میزانیہ کے بارے میں خدشات کیلئے مشیر خزانہ کو ہی پریس کے سامنے آنا پڑا۔ بطور وزیر حنا ربانی کھر نے مشیر خزانہ کو مکمل اخلاقی سپورٹ دی اور ایک لفظ بھی سرکار یا میزانیہ کی حمایت میں نہیں بولا۔ مشیر خزانہ کا خیال ہے کہ اگر دوستوں نے وعدہ کے مطابق ہماری جھولی نہ بھری تو پھر حالت مجبوری میں پاکستان کے بے چارے عوام کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرض لینا پڑے گا تاکہ عوام قرض کی لاٹھی سے اپنے کس اور بل نکلوا سکیں۔
ویسے ہماری سرکار کا کردار امریکہ کے پٹھو کا سا ہے۔ امریکہ کی دوغلی اور اسلام دشمن پالیسی کی وجہ سے ہماری فوج ہمیشہ سے دباؤ کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہماری فوج کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف ہلاشیری دے رہا تھا۔ دوسری طرف طالبان کی درپردہ مکمل مدد بھی کر رہا ہے۔ ایسے میں کون امریکہ پر یا اس کی امداد پر بھروسہ کرے پھر امریکہ کا مشورہ ہے۔ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے۔
بجٹ تو آ گیا مگر سرکار کے خرچ کی کوئی انت نہیں۔ صبر کا درس عوام کیلئے ہے۔ عوام کی خواہش ہے کہ سرکار ایکشن کرے مگر ہمارے سیاستدان الیکشن کے انتظار میں ہیں۔ سرکار اور سیاست دانوں کی ترجیحات ہی اور ہیں؎
تعمیر کے عمل میں تسلسل ہے ناگزیر
ہر چار پانچ کوس پہ اک سنگِ میل ہے
اپنی نگاہ پر بھی جمی کتنی دھول ہے
’’ایکشن‘‘ نہیں قبول الیکشن قبول ہے
کیا عوام کے خوابوں کو کوئی رہزن تعبیر دے گا۔
کے ذریعہ ایس ایم ایس کے پیغامات کو قابو کرنے کا دوررس علاج شروع کیا ہے۔ ہمارے خزانہ کے مشیر ایک سابقہ بنکر ہونے کے ناطے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے بہت ہی مداح ہیں۔ اگرچہ اس میزانیہ کا اعلان خزانہ کی چھوٹی وزیر حنا ربانی کھر نے کیا ہے۔ اس کیلئے اردو میں تقریر کرنا کچھ مشکل تھی۔ پہلے تقریر کو رومن انگریزی میں لکھوایا گیا پھر اس کی تیاری بھی کی گئی مگر اتنی تیاری کے باوجود ان کی بجٹ تقریر زیادہ اثر نہ دکھا سکی۔ میزانیہ کے بارے میں خدشات کیلئے مشیر خزانہ کو ہی پریس کے سامنے آنا پڑا۔ بطور وزیر حنا ربانی کھر نے مشیر خزانہ کو مکمل اخلاقی سپورٹ دی اور ایک لفظ بھی سرکار یا میزانیہ کی حمایت میں نہیں بولا۔ مشیر خزانہ کا خیال ہے کہ اگر دوستوں نے وعدہ کے مطابق ہماری جھولی نہ بھری تو پھر حالت مجبوری میں پاکستان کے بے چارے عوام کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرض لینا پڑے گا تاکہ عوام قرض کی لاٹھی سے اپنے کس اور بل نکلوا سکیں۔
ویسے ہماری سرکار کا کردار امریکہ کے پٹھو کا سا ہے۔ امریکہ کی دوغلی اور اسلام دشمن پالیسی کی وجہ سے ہماری فوج ہمیشہ سے دباؤ کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہماری فوج کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف ہلاشیری دے رہا تھا۔ دوسری طرف طالبان کی درپردہ مکمل مدد بھی کر رہا ہے۔ ایسے میں کون امریکہ پر یا اس کی امداد پر بھروسہ کرے پھر امریکہ کا مشورہ ہے۔ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے۔
بجٹ تو آ گیا مگر سرکار کے خرچ کی کوئی انت نہیں۔ صبر کا درس عوام کیلئے ہے۔ عوام کی خواہش ہے کہ سرکار ایکشن کرے مگر ہمارے سیاستدان الیکشن کے انتظار میں ہیں۔ سرکار اور سیاست دانوں کی ترجیحات ہی اور ہیں؎
تعمیر کے عمل میں تسلسل ہے ناگزیر
ہر چار پانچ کوس پہ اک سنگِ میل ہے
اپنی نگاہ پر بھی جمی کتنی دھول ہے
’’ایکشن‘‘ نہیں قبول الیکشن قبول ہے
کیا عوام کے خوابوں کو کوئی رہزن تعبیر دے گا۔