کے ذریعہ ایس ایم ایس کے پیغامات کو قابو کرنے کا دوررس علاج شروع کیا ہے۔ ہمارے خزانہ کے مشیر ایک سابقہ بنکر ہونے کے ناطے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے بہت ہی مداح ہیں۔ اگرچہ اس میزانیہ کا اعلان خزانہ کی چھوٹی وزیر حنا ربانی کھر نے کیا ہے۔ اس کیلئے اردو میں تقریر کرنا کچھ مشکل تھی۔ پہلے تقریر کو رومن انگریزی میں لکھوایا گیا پھر اس کی تیاری بھی کی گئی مگر اتنی تیاری کے باوجود ان کی بجٹ تقریر زیادہ اثر نہ دکھا سکی۔ میزانیہ کے بارے میں خدشات کیلئے مشیر خزانہ کو ہی پریس کے سامنے آنا پڑا۔ بطور وزیر حنا ربانی کھر نے مشیر خزانہ کو مکمل اخلاقی سپورٹ دی اور ایک لفظ بھی سرکار یا میزانیہ کی حمایت میں نہیں بولا۔ مشیر خزانہ کا خیال ہے کہ اگر دوستوں نے وعدہ کے مطابق ہماری جھولی نہ بھری تو پھر حالت مجبوری میں پاکستان کے بے چارے عوام کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرض لینا پڑے گا تاکہ عوام قرض کی لاٹھی سے اپنے کس اور بل نکلوا سکیں۔
ویسے ہماری سرکار کا کردار امریکہ کے پٹھو کا سا ہے۔ امریکہ کی دوغلی اور اسلام دشمن پالیسی کی وجہ سے ہماری فوج ہمیشہ سے دباؤ کا شکار رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہماری فوج کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف ہلاشیری دے رہا تھا۔ دوسری طرف طالبان کی درپردہ مکمل مدد بھی کر رہا ہے۔ ایسے میں کون امریکہ پر یا اس کی امداد پر بھروسہ کرے پھر امریکہ کا مشورہ ہے۔ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے۔
بجٹ تو آ گیا مگر سرکار کے خرچ کی کوئی انت نہیں۔ صبر کا درس عوام کیلئے ہے۔ عوام کی خواہش ہے کہ سرکار ایکشن کرے مگر ہمارے سیاستدان الیکشن کے انتظار میں ہیں۔ سرکار اور سیاست دانوں کی ترجیحات ہی اور ہیں؎
تعمیر کے عمل میں تسلسل ہے ناگزیر
ہر چار پانچ کوس پہ اک سنگِ میل ہے
اپنی نگاہ پر بھی جمی کتنی دھول ہے
’’ایکشن‘‘ نہیں قبول الیکشن قبول ہے
کیا عوام کے خوابوں کو کوئی رہزن تعبیر دے گا۔