خواجہ صاحب کی بات کو ذرا دیتے ہوئے بڑھاوا
برمزارِ ریلوے، چڑھاﺅ دیگوں کا چڑھاوا
لیٹ ہونے سے ٹرینوں نے تو باز نہیں آنا
بھوکے مسافروں کو اسی بہانے مل جائے گا کھانا
بھوکی جنتا بھی ٹرینوں پہ کرنے لگے گی سفر
ٹکٹ ایک مزے دو دو، بنے گا وسیلہ¿ ظفر
مسافر ان گاڑیوں کے زار و زار ہیں روتے
تیز رفتار ریڑھیاں ان سے، جنہیں کھینچتے ہیں کھوتے
سٹیفن سُن کے زمانے کے سبھی انجن ہیں رواں
کھڑے تھک کے چُور کچھ یہاں، کچھ وہاں
افسران کی بھرمار یہاں، نوکروں کی فوج ہے
لگی ان سب کی اِدھر، موج ہی موج ہے
اس محکمے کا انچارج اب کباڑیہ کہلائے
لگائے بڑھکیں آتے ہی پہلے، پھر ٹسوے بہائے
مال گاڑیاں اب کسی مال خانے میں جمع
رکھتا نہیں محکمہ اب محسن! مال کمانے کا طمع