یہ تیرے پراسرار بندے

یہ تیرے پراسرار بندے

انتخابی عمل میں ایسی غیر قانونی مداخلت جس سے کسی خاص امیدوار یا خاص پارٹی کو فائدہ پہنچے، دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے اور دھاندلی کا طریقہ کار ہر ملک میں مختلف ہے۔ سو فیصد شفاف الیکشن تو شاید ہی کسی ملک میں ہوتے ہوں تاہم ترقی یافتہ ممالک میں انتخابی دھاندلی کی شکایات ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت کم ہوتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کا شمار چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جن میں دھاندلی کی شکایات بہت ہوتی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وطن عزیز میں قیام پاکستان سے لے کر 2013 تک جتنے الیکشن ہوئے ہیں ان میں دھاندلی کی شکایات کسی نہ کسی صورت میں ضرور منظر عام پر آئی ہیں۔ زیر نظر کالم میں تمام انتخابات کی دھاندلی کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں تاہم چند مثالیں پیش خدمت ہیں:اس حوالے سے ایک بڑی مثال ان انتخات کی ہے جن میںسابق ڈکٹیٹرایوب خان نے بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح، جنہوں نے خود بھی اپنی زندگی اس ملک کے قیام کےلئے وقف کر دی کو ہرانے کے لئے کی۔ اس کے بعد 1977ءمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انداز میں دھاندلی کرائی۔ جس کے خلاف اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیااور اس کے نتیجے میں جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاءلگا دیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے جو ”شفاف“ ریفرنڈم کرایا اس میں پوچھا گیا کہ اگر آپ ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں تو مجھے صدر منتخب کیا جائے۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں جنرل ضیاءالحق صدر بن گئے۔ پھر انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ اپنایاکبھی غیر جماعتی انتخابات، کبھی جماعتی انتخابات....وہ مزیداقتدار میں رہنے کی خواہش کا اظہار اکثرکیاکرتے تھے مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اس کے بعد بے نظیر اقتدار میں آئیں پھر نواز شریف پھر بے نظیر پھر نواز شریف اور پھر جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا وہ صدر ضیاءکی طرح ”شفاف“ریفرنڈم کرا کر صدر منتخب ہو گئے۔ پھر انہوں نے اپنی نگرانی میں انتخابات کرائے جن میں ق لیگ کو کامیاب کر ایا مگر2008 میں جو الیکشن ہوئے ان میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی اور پرویز مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اورآصف علی زرداری صدر بن گئے۔ 2008ءکے انتخابات سمیت ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے یہ ایسی فضا میں ہوئے کہ لوگوں کو انتخابات سے پہلے ہی شک ہو جاتا کہ کوئی غیر مرئی ہاتھ انتخابات میں اثر انداز ہو رہا ہے۔ لہذا انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے لائنوں میں لگنے کا کوئی فائدہ نہیںرزلٹ تو پہلے ہی تیار ہو چکے ہیں اور ان انتخابات کو انجینئرڈ الیکشن قرار دیا گیا۔ اس کے برعکس 2013ءکے انتخابات سے قبل ایسی صورتحال نظر آ رہی تھی کہ یہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں گے۔ اسی لئے ان انتخابات میں ٹرن آﺅٹ ماضی کے تمام انتخابات سے زیادہ رہا۔ جب انتخابات ہو گئے تو ملک کی تمام جماعتوں نے ان انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزامات لگائے تحریک انصاف نے تو دھاندلی کے خلاف ڈیفنس لاہور اور ڈیفنس کراچی میں کئی دن تک دھرنے بھی دیئے مسلم لیگ ن نے سندھ میں دھاندلی کی شکایات کیں۔ صدر زرداری نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ خطاب میں انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات نہ کرنے پر تحریک چلانے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے، منظور وٹو نے انہیں مینجڈ الیکشن کہا۔ ایم کیو ایم، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام سمیت ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے دھاندلی کی شکایت کی ہے۔
 غور طلب بات یہ ہے کہ کونسی ایسی طاقت ہے جو اس ملک کے انتخابات میں کبھی انجینئرڈ اور کبھی مینجڈ الیکشن کراکر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار حالیہ انتخابات سے قبل ایسی فضا پیدا ہوئی جس سے لوگوں کو امید تھی کہ اس بار الیکشن شفاف ہوں گے مگر انتخابات کے انعقاد کے بعد سیاستدانوں کے بیانات سے لوگوں کی اس امید کو شدید دھچکا لگا ہے۔اگر شفاف انتخابات کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر عوام کا الیکشن کمیشن‘عدلیہ اور حکمرانوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن