پاکستان میں وفاقی بجٹ آتے ہی آئی ایم ایف کے لوگوں نے بھنگڑا ڈالا ہوگا کیونکہ لگتا ہے اس ظالمانہ بجٹ کی منظوری خفیہ طور پر آئی ایم ایف سے لی گئی تھی۔ میرے خیال میں پی پی پی کی گزشتہ حکومت نے اپنے آخری سال میں عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے انکا ر کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے بات چیت روک دی تھی اور نئے قرضے کے لئے رجوع نہیں کیا تھا مگر نئی حکومت آتے ہی آئی ایم ایف کے لوگوں نے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا اور عوام پر ظالمانہ مہنگائی کا نیا طوفان مسلط کردیا گیا۔ بجٹ آتے ہی آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آگیا ہے اور اب آئی ایم ایف سے 5 ارب ڈالر کا معاہدہ کردیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پچھلے قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لئے یہ 5 ارب ڈالر لئے جارہے ہیں جو پاکستان میں استعمال ہونے کی بجائے دوبارہ آئی ایم ایف کی جیب میں چلے جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان اگر مالی مشکلات کا شکار ہے تو آئی ایم ایف سے ری شیڈول کے لئے درخواست کی جاتی اور آئی ایم ایف کے حکام کے مطابق وہ پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں اس لئے وہ اسے قبول کرتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران عوام کی فلاح و بہبود کے دعوے کرنے والے دراصل امریکہ کی خوشنودی کے لئے کام کرتے ہیں اور آئی ایم ایف دراصل امریکہ ہی ہے جو پاکستان سے بھاری رقوم کما رہا ہے اور اس مدمیں بھاری کمیشن سے پاکستان میں معیشت کے ذمہ داروں کے جیب بھی گرم ہوتے ہیں اور یہ لوگ لوٹی ہوئی دولت بھی امریکہ میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہاں میں جنرل مشرف کو سلام پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو موجودہ حکومت کی قید میں ہیں ۔ جنرل مشرف کے آنے سے قبل آئے روز اخبارات میں یہ خبریں آرہی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹر ہورہا ہے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جارہا ہے مگر انہوں نے آتے ہی 3 سال کے اندر اندر ملک کو آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے چنگل سے نہ صرف آزاد کرایا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بے پناہ اضافہ کیا۔ جنرل مشرف نے ایشیائی ترقیاتی بینک کو قبل ازوقت یکمشت ادائیگی کرکے پاکستان کی جان چھڑائی۔ مگر گزشتہ حکومت اور اب موجودہ حکومت نے دوبارہ پاکستان کو ان عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے فوری طور پر G.S.T. کے نفاذ پر 1931ءکے ایکٹ کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت فوری طور پر G.S.T. میں اضافہ وصول کیا جاسکتا ہے مگر شاید انہیں یہ علم نہیں کہ اس وقت تو پاکستان قائم بھی نہیں ہوا تھا تواس برٹش ایکٹ کا پاکستان سے کیا لینا دینا؟ اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم اب بھی برٹش رعایا ہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ G.S.T. کی شرح 5% کرکے ری فنڈ مکمل طورپر ختم کردیا جاتا اور تمام ٹیکسوںکی شرح میں زبردست کمی لاکر ”ری فنڈ“ کا مکمل خاتمہ کرنے سے پاکستان کے قومی خزانے کو ٹیکس کرپشن سے نجات مل جاتی کیونکہ حقیقت میں جی ایس ٹی کا 4% بھی قومی خزانے کو نہیں ملتا اور باقی تمام جی ایس ٹی صنعتکار ”ری فنڈ“ لے لیتے ہیں۔ حالانکہ فیکٹری مالکان اپنی مصنوعات کی قیمتیں صارفین سے بمع جی ایس ٹی وصول کرچکے ہوتے ہیں اور پھر ”ری فنڈ“ کا کیا جواز؟
ویسے بھی قیام پاکستان سے اب تک صنعتکاروں کی دولت میں اضافے کے لئے پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور اس کے باوجود صنعتکاروں نے اپنی پیداوار کا ٹیکس محکمے میں 1/4 بھی کبھی درج نہیں کیا۔ جس ملک میں بجلی محکموں کے ملازمین خود کارخانوں اور گھروں میں جاکر رشوت کے عوض بجلی کے بل نصف کرنے کی پیشکش کرتے ہیں وہاں صرف خوف خدا کے مارے ہی پورا بل ادا کریں گے جبکہ یہ بات عام ہے کہ جس معاشرے میں مال و ز ر سے لگاﺅ ہو اور دولت کے لئے تمام کچھ کر گزرنے کی روش عام ہو وہاں خوف خدا ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیکس کرپشن کے خاتمے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس محکمے کے اہلکاروں اور افسران کی آمدن اور اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کی جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔صنعتکار ہمیشہ خود کو محب وطن گردانتے ہیں اگر یہ بات حقیقتاً درست ہے تو اس کا عملی ثبوت یہ ہوگا کہ تمام صنعتکار چند سال کے لئے گیس سے دستبردار ہوکر قومی مفاد میں ساری گیس تھرمل پاور اسٹیشنز کو دینے کا اعلان کردیں۔
بجٹ کے بعد اسحاق ڈار نجی ٹی وی پر حامد میر کو انٹرویو دے رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ نشے میں ہوں۔ بجٹ میں شرح سود سنگل ڈجٹ کرنے کا اعلان کیا جاتا اور ہنرمند اور پڑھے لکھے افراد کو آسان شرائط پر 20 لاکھ تک شخصی ضمانت پر قرض دینے کا اعلان کیاجاتا تو باصلاحیت نوجوان اپنے روزگار کے مواقع پیدا کرتے اور ملکی معیشت کو استحکام ملنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں کمی واقع ہوتی۔ جنرل مشرف نے یہی کیا تھا اور شرح سود 4% کرکے مائیکروفنانس اسکیموں کے ذریعے عوام کوروزگار کے بہترین مواقع فراہم کئے تھے۔ G.S.T. جب فیکٹری مالک اپنے کنزیومرسے وصول کرلیتا ہے تو اس کے بعدسپلائرز کے G.S.T. کی رجسٹریشن کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ پیٹرولیم کمپنیاں اپنے ڈیلرز پمپ مالکان سے انوائس پر G.S.T. وصول کرلیتے ہیں لیکن موجودہ بجٹ کے بعد کمپنیاں پیٹرول پمپ مالکان سے رجسٹریشن نہ ہونے کے باعث 2% اضافی ٹیکس لے رہی ہیں تو کیا ایسا ممکن ہے کہ پیٹرول پمپ مالکان اپنی کمیشن ٹیکس میں دیکر بغیر منافع کے مصنوعات عوام کو فروخت کریں گے؟ اس لئے بجٹ آتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی اور ساری قوم کنفیوژن کا شکار ہے۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ G.S.T. میں اضافہ تو 1% کیا گیا مگر مصنوعات کی قیمتوں میں 15% تک اضافہ ہوگیا ہے مگر کوئی پرائس کنٹرول کا ادارہ نہیں جو اس ظلم کو لگام دے۔
شہباز شریف کی میٹروبس کا منصوبہ قابل تعریف ہے مگر اس میں جو میک اور ماڈل استعمال کیا گیا ہے اس میں مستقبل میں مشکلات آئیں گی کیونکہ اس کمپنی کے پارٹس اور مرمت کا ملک میں پہلے سے کوئی انتظام موجود نہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اگر مستقبل قریب میں کسی بھی قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ اور چھوٹی گاڑیوں کی اسکیمیں شروع کرتی ہیں تو ایسی کمپنیوں سے بسیں‘ ٹرک اور کاریں لی جائیں جن کی سیلز‘ سروس اور پارٹس کا منظم نظام گزشتہ 15 سال سے پاکستان میں موجود ہو۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور ماضی کی طرح ڈائیوو ریسر اور ہنڈائی جیسی گاڑیاں لاکر قومی خزانے کو مزید نقصان نہیں دینا چاہئے بلکہ ہر طرح کی ٹرانسپورٹ اسکیم کے لئے ہینوپاک‘ نسان‘ ڈائیوو‘ فاء‘ انڈس موٹرز‘ سوزوکی ‘ ہنڈا اور قراقرم موٹرز کی ہی گاڑیاں بنوائی جائیں اور ان کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ عرصے کی گارنٹی لی جانی چاہئے اس سے مقامی موٹر ساز انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور بے روزگاری میں کمی کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے سے خرچ کی جانیوالی رقوم یقینی طور پر محفوظ رہیں گی اور ایساخدشہ نہیں ہوگا کہ گاڑیاں پارٹس نہ ہونے کے باعث اسکریپ کردی جائیں کیونکہ کراچی کیلئے چین سے لی گئی 200 بسیں آج کباڑہوچکی ہیں۔
اسٹیٹ بینک فوری طور پر شرح سود سنگل ڈجٹ کرنیکا اعلان کرکے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد کے لئے مائیکروفنانس کا اعلان کرے اس سے یقینی طور پر بے روزگاری میں کمی آئیگی اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے بطور گورنراسٹیٹ بینک یہی اقدامات کئے تھے جسکے باعث پاکستانی معیشت بہت مستحکم تھی۔
بجٹ اور آئی ایم ایف
Jun 25, 2013