کرنل صاحب اب آپ پٹواری بھرتی ہونے کیلئے تیار ہوں جائیں ۔ یہ ہمارے مہربان دوست سبط حسن شاہ ایس ای پی ڈبلیو ڈی تھے بعد میں غالباً چیف انجینئر ریٹائر ہوئے ۔ جنگ ستمبر1965 کے دوران ساری سول ایڈمنسٹریشن نے انتہائی خلوص اور بہادری سے ملٹری آپریشنز کی امداد کی ۔ ان میںمحکمہ انہار اور پی ڈبلیوڈی کے انجینئر سر فہرست تھے۔سبط حسن شاہ نابغہ شخصیت کے مالک تھے‘ باتوں میں پھلجڑیاں چھوڑتے۔ اب جبکہ شاہ صاحب نے پٹواری بھرتی ہونے کا مشورہ دیا تو اس کو بھی میں مذاق ہی سمجھ رہا تھا۔ فرمایا کہ لاہور میں عام افواہ ہے کہ لڑائی کے میدان میںہم بھارت کو زیر نہیں کر سکتے تو پھر اتنی بڑی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے بس سلیوٹ اور پروٹوکول کیلئے چند دستے رکھ کر باقی ماندہ فوج پر اٹھنے والے اخراجات اقتصادی ترقی پر لگائے جائیں اور عام آدمی کو فائدہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ فوج کے اعلیٰ طبقہ نے ان افواہوں پر یقین کر کے اپنا اپنا ٹھکانا پکڑنا شروع کر دیا ہے اور ابتدایوں کی ہے کہ آرمی کے اکلوتے کور کمانڈر ڈپٹی سی این سی اور مغربی پاکستان کے سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل بختیا ر رانا جن کو لوگ پیار سے بے اختیا ر رانا کہتے تھے۔ پنجاب گورنمنٹ کے سمال انڈسٹری کارپوریشن کے سربراہ بھرتی ہو گئے۔ پھر شاہ صاحب نے میری طرف خصوصی مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا اب ان حالات میں کرنل صاحب آپ کو پٹواری کی نوکری مل جائے تو شکرانہ کے نفل پڑھیں۔ یہ سب باتیں سُن کر مجھے اپنی فکر کی بجائے جنرل رانا پر بڑا ترس آیا کہ بیچارے کتنے مجبور ہوں گے۔ اور کتنی تگ ودو سے سیکشن افسر کی نوکری حاصل کی ہو گی۔
اور اب ہم واپس جنرل ملک صاحب کی طرف چلتے ہیں ۔ جنرل صاحب کمیشن میں راقم سے تھوڑے سے جونیئر ہیں اس لئے سروس کے دوران ہم دونوں شانہ بشانہ چلتے رہے۔ فوج میں جنرل ملک کی پیشہ ورانہ شہرت ہمیشہ ہی بہت اچھی رہی اور آپ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ 1971ءکی جنگ کے دوران ہم دونوں پھر اکٹھے ہوگئے ۔ لاہور میں آپ ڈویژن کمانڈر تھے جبکہ راقم کور ہیڈکوارٹر میں سینئر بریگیڈئیر کور آرٹلری کمانڈر تھا۔ جنگ سے قبل ملک کے روابط پیپلز پارٹی اور خصوصاً ملک غلام مصطفی کھر کیساتھ انتہائی قریبی تھے۔ چنانچہ جنگ کے بعد آپ کر ترقی دے کر کور کمانڈر اور چیف آف جنرل سٹاف (سی جی ایس) بنا دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں آرمر ڈ کور کا دورہ کیا تو آپ جنرل ضیا الحق کی عاجزی ، انکساری اور تابعداری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ نے وہیں ان کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب رواج کے مطابق ضیاالحق سے سینئر جرنیلوں کو ملک بدر کیا گیا تو ملک صاحب کو لیبیا میں سفیر بنا دیا گیا اور جنرل ٹکا خان نے ڈپٹی ڈیفنس منسٹر کا عہدہ قبول کر لیا اور لاہور میں جنرل ملک کے ساتھ دوسرے ڈویژن کمانڈر ضامن نقوی کو اپنا ایڈوائزر مقر ر کردیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کا جلد ہی جنرل ضیاءالحق سے جی بھر گیا تو آپ نے ان کو نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب یہ دونوں یعنی بھٹو اور جنرل ضیا الحق ایک دوسرے پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان حالات میں نچلے درجے کے جرنیلوں کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کا ساتھ دیں۔ اس معاملہ میں بھٹو کے چیف ایڈوائزر جنرل ٹکا خان تھے۔ نئے آرمی چیف کیلئے بھٹوصاحب کے پاس تین نام زیر غور تھے جنرل عبداللہ ملک (سی جی ایس) جنرل امتیاز ذوالفقار علی بھٹو کے ایم ایس اور جنرل ملک جن کو لیبیا سے خاص منگوایا گیا۔ اب جنرل ضامن نقوی نے راقم کو بتایا کہ وہ ان تینوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ لیکن جنرل ملک راولپنڈی میں انڈر گرانڈ ہوگئے اور بہت دیر بعد لاہور میں نظر آئے۔ اندریں حالات جو مشہور ہے کہ جناب غلام اسحاق خان نے جنرل ضیا الحق کو بھٹو کے پلان سے آگاہ کیا کلیتہً صحیح نہیں ہے بلکہ بھٹو صاحب کی ملٹری پلاننگ کے متعلق جنرل ٹکا خان کے ایڈوائزر جنرل ضامن نقوی نے ضیاالحق کو آگاہ رکھا جبکہ بھٹو صاحب ابھی تک نئے آرمی چیف کے بارہ میں فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ ضیاالحق نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غلام اسحاق خان کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا اور میجر جنرل ضامن نقوی کو انعام کے طور پر ریٹائرڈ ہونے کے باوجود لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی دے کر اٹامک انرجی میں لگا دیا تو دوسری طر ف جنرل ٹکا خان اور جنرل امتیاز پکڑدھکٹر میں مبتلا رہے۔
اسکے بعد جنرل ملک تو لاہور میں کسی شیشہ کری کمپنی کی نوکری سے ہوتے ہوئے سیاست میں آ گئے اور کامیاب سیاستدان بن گئے۔ چنانچہ دو تین بار اہم وفاقی وزیر بننے کے بعد آجکل کی (ق) لیگ کے مرکزی وائس پریذیڈنٹ بن گئے لیکن سرکاری مسلم لیگ میں اندرون خانہ جو چپقلش چل رہی ہے اور جس کی وجہ سے اب (ق) لیگ کو قینچی لیگ کا خطاب دیا جا رہا تو اس کتر بود میں جنرل مجید ملک کا پتہ بھی کٹ گیا اور مرکزی وائس پریذیڈنٹ ہونے کے باوجود آپ کو ماضی کی ایک تحصیل کے ناظم کا عہدہ بھی نہیں دیا جاتا رہا۔ واضح رہے کہ جب جنرل ملک چیف آف جنرل سٹاف کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز تھے اور کمانڈر انچیف بننے کے نزدیکی امیدوار تھے تو اس وقت چکوال ضلع جہلم کی ایک تحصیل تھی جہاں پرایسی چکوال کی حکومت کے ماتحت ریوینو اور پولیس سمیت تمام صوبائی محکمے بھی تھے اب نامعلوم کیا مجبوری ہوئی کہ جنرل ملک اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے کہ بعد چکوال کی تحصیلداری کیلئے ہاتھ پاﺅںمار رہے ہیں۔
ہم نے بات پٹواری سے شروع کی تھی چنانچہ راقم نے اس وقت کے وزیر اعظم جناب شوکت عزیز صاحب کو ذاتی خط کے ذریعے اور اخباری مضمون میں بھی گزارش کی تھی اگر آپ ملک کو پٹوار خانے سے نجات دلا سکیں تو رہتی دُنیا تک آپ کا نام پاکستان میں نہیں بلکہ برصغیر میں بھی روشن رہے گا کیونکہ آپ نے اگر کاشتکاروں کو اس ظالمانہ نظام سے نجات دلائی تو لازم ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش بھی آپکی متابعث کرینگے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ضلعی نظامت میں پیسہ ہے اس لئے سیاسی لوگ اسکے پیچھے دوڑتے چلے جارہے ہیں لیکن اصل پیسہ تو پٹوار خانے میں ہے تو ادھر کیوں نہیں توجہ دی جاتی۔ اس وقت اسلام آباد ، راولپنڈی اور فتح جنگ کی تحصلیں لینڈ مافیا کی گرفت میںہیں۔ عام مشہور ہے کہ پٹواریوں نے ۵ کروڑ کی حد مقرر کر رکھی ہے جہاں پٹواری کو یہ ٹارگٹ حاصل ہو جاتا ہے وہ پکڑدھکڑ کے خطرہ سے بچنے کیلئے مستعفی ہو جاتا ہے اس لئے حکومت نے اگر لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ کیخلاف کوئی کمیٹی بنائی ہے تو اس کو ا لینڈ مافیا پٹواری مافیا، اور قبضہ گروپ مافیا کے خلاف تحقیقات کرنے کے حکم صادر کرنے چاہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب اور پٹوار ی نظام
Jun 25, 2013