پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے کے محرکات

Jun 25, 2013

کنور دلشاد....شاہراہ دستور سے

جون2005ءکے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں اگر سپریم کورٹ آف پاکستان صدر پرویز مشرف کا صدارتی انتخاب کالعدم قرار دیکر ملک میں آئینی بحران پیدا کر دیتی تو یہاں پر وسیع تر قومی مفاد کے تحت صدر پرویز مشرف وقتی طور پر ایمرجنسی نافذ کر کے ملک کو آئینی بحران سے بچانے میں حق بجانب ہوتے ان کا موقف ےہ ہوتا جب ےہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی رو سے صدارتی انتخاب کا انعقاد ہو چکا تھا جس کے تحت پاکستان کی چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی بھی تائید حاصل تھی تو پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلا وجہ ملک میں آئینی بحران کھڑا کر دیا جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان جون2005ءمیں قاضی حسین احمد اور بنام صدر پرویز مشرف میں ےہ فیصلہ دے چکی تھی کہ صدر کے انتخاب میں آئین کے آرٹیکل 62،63لاگو ہی نہیں ہوتا۔ اس بنچ کے سربراہ چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی اور ارکان میں جسٹس افتخار احمد چوہدری ، جسٹس تصدق حسین جیلانی جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فقیر کھوکھر اور جسٹس نواز عباسی(نام کی غلطی اگر ہو تو پیش گی معذرت کے ساتھ) تھے اور اس بنچ کے فیصلہ کی روشنی میں 3نومبر2007ءکو صدر پرویز مشرف کیخلاف فیصلہ آنے کا امکان نظر نہیں آرہا تھا لےکن طاقتور میڈیا، صدر کے اردگرد نادان دوستوں نے ان کو سپریم کورٹ کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر کے ان سے 3نومبرکی ایمرجنسی لگانے میں وہ کامیاب ہو گئے۔ دراصل صدر پرویز مشرف کے ارد گرد امریکی سی۔آئی۔اے کے ایجنٹوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔لہٰذا صدر پرویز مشرف نے انتظامی طور پر تو اس ایمرجنسی کو لگوانے کیلئے تمام قانونی راستے اختیار کر لئے لےکن اصل حالات جاننے کیلئے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے فرمان کو جاری کرنے کے تمام مرحلے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اےک کمیشن تشکیل دیا جائے جو صحیح حالات جاننے کےلئے تمام آئینی اور قانونی پہلوﺅں پر غور کر ے۔بدقسمتی سے اتنے بڑے اور اس قدر سنگین قدم اٹھانے کے ارتکاب کی بناءپر جو مقدمہ آرٹیکل 6کی بنیاد پر شروع ہونے کا امکان ہے اسکی لپیٹ میں ہماری پوری تاریخ آجائے گی پھر قوم کو اس سچائی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا کہ 1973کا آئین بنانے والی آئین ساز ی غیر آئینی تھی اور جس حیثیت میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس آئین کو مغربی پاکستان کا نام تبدیل کر کے اسے پاکستان سرکاری طور پر قرار دے دیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس وقت ملک میں چار صوبے تھے اور ان کو پاکستان کے نام پر یکجا کرنے کا اتھارٹی مارشل لاءکے آرڈر کے تحت دی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاءآرڈر کے تحت باقی ماندہ چاروں صوبوں کو یکجا کر کے جس پاکستان کی تقدیر بنانے کا قدم اٹھایا تھا وہ1973ءکا آئین بنانے والی اسمبلی ناجائز اور غیر آئینی تھی۔ اصولی طور پر پاکستان کی ملٹری Establishmentکو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو نگران صدر مقرر کر کے چاروں صوبوں میں فوراًنئے انتخابات کرائے جاتے اور بعد ازاں آئین ساز اسمبلی ملک کا آئین مرتب کرتی۔ سیاسی آلودہ ماحول میں مجرم کھلے عام پھر رہے ہےں اس میں جنرل پرویز مشرف کو احتساب کے کٹہرے میں لانا نہ تو انصاف کہلائے گا اور نہ ہی دانشمندانہ اقدام۔
12اکتوبر1999ءکو وزیراعظم نواز شریف غلطی پر تھے ےا پھر جنرل پرویز مشرف اور انکے ساتھی جرنیلوں کا اقدام غیر آئینی تھا۔ نواز شریف کا اس معاملہ پر مو¿قف ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ آئین کیخلاف تھا اور ان کو آرٹیکل 6کے تحت سزا ملنی چاہےے جبکہ دوسری طرف جنرل مشرف اقتدار پر قبضہ کو درست سمجھتے ہےں‘ اس اہم معاملہ پر پاکستان کے ایک صحافی تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہےں ۔ معزول وزیراعظم نواز شریف کے پروٹوکول آفیسر زاہد محمود نے کراچی میں عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ 12اکتوبرکو ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید اقبال کے دفتر میں سعید مہدی اور جنرل ضیاءالدین بٹ نے انکی موجودگی میں وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر جنرل پرویز مشرف کی ریٹائرنمنٹ کے احکامات ثابت کروائے۔ 4بجکر 40منٹ پر وزیراعظم ایوانِ صدر گئے اور 5بجے واپس آئے۔ زائد محمود کے مطابق پونے چھ بجے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید اقبال کو پتہ چلا کہ ٹیلی ویژن پر فوجی دستے آگئے ہےں لہٰذا وہ پستول لیکر ٹیلی ویژن سٹیشن چلے گئے جبکہ وزیراعظم نے شاہد خاقان عباسی کو حکم دیا کہ جس کے 805 کار رخ فقط کیطرف موڑ دیں۔ زاہد محمود نے بتایا کہ مسٹر سعید مہدی کے بیان میں سب سے اہم بات ےہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ کے احکامات اےک بریگیڈےئر اور اےک لیفٹیننٹ جنرل کی موجودگی میں ٹائپ کروائے اور احکامات پر عمل درآمد کے لئے وزارت دفاع سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ جب تک وزارت دفاع آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری نہ کرے تب تک ٹیلی ویژن سے خبر بھی نشر نہیں کی جاسکتی۔ سچ تو ےہ ہے کہ وزارت دفاع سے جنرل پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ اور جنرل ضیاءالدین کی تقرری کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا۔ صدر جسٹس محمد رفیق تارڑ کے ہاں جو خط نواز شریف نے بطور وزیراعظم بھیجا اُس میں صدر پاکستان کی منظوری کیلئے نہیں ملک بلکہ برائے اطلاع ان کو خط بہ نفس نفیس میاں نواز شریف خود لیکر گئے اور انہوں نے وزیراعظم کی موجودگی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس پر "Seen"لکھ دیا اور اگر اس خط کو حاضر بیورو کریسی کو جانچ پڑتال کیلئے دکھایا جائے تو بیورو کریسی کے ماہرین بتا دینگے کہ صدر رفیق تارڑ نے بڑی بددلی سے "Seen"لکھا اور خط کے اےک کونے پر Half Signatureکر دئےے۔
بیورو کریسی کی لغت میں اےسے دستخط کا مطلب ےہ اخذ کیا جاتا ہے کہ متعلقہ اتھارٹی نیم دلی سے دیکھ رہی ہے۔ جب وزارت دفاع کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں گزٹ نوٹی فکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو میاں نواز شریف کا جنرل پرویز مشرف کے بارے میں قدم غیر آئینی ہی تصور کیا جائیگا اور افواجِ پاکستان کو اشتعال دلانے کے مترادف ہی سمجھا جائیگا۔حالات واقعات بتاتے ہےں کہ آئین شام ساڑھے سات بجے نہیں بلکہ 5بجے ٹوٹ گیا۔ جب نوٹی فکیشن کے بغیر ٹیلی ویژن سے فوج کے سربراہ کی برطرفی کا اعلان کر دیا۔ جیسا کہ صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت وفاقی حکومت نے مقدمہ دائر کیا ہے تو پھر سابق صدر پرویز مشرف کو اپنی صفائی کرنے کا پورا موقع ملنا چاہےے اور آرٹیکل 6کا اطلاق 5جولائی 1977ءسے شروع کیا جائے۔(ختم شد)

مزیدخبریں