اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کا جواب عدالت میں جمع کرا دیا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف سمیت ان کی معاونت کرنے اور آئین توڑنے والوں کیخلاف آئین کے آرٹیکل (6) کے تحت کارروائی کی جائے سینیٹ کی منظور کردہ قرارداد کے تحت 3 نومبر کے غیر قانونی اقدامات کرنیوالوں کیخلف آئین و قانون کے تحت کارروائی کیلئے وزیراعظم پرعزم ہیں۔ عدالت نے معاملے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے 30 دن مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے حکومت کو اٹارنی جنرل کے توسط سے تفصیلی جواب جمعرات (27 جون) تک عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا کہ واضح کیا جائے کہ مستقبل میں وفاقی حکومت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف کیا اقدامات کرنا چاہتی ہے؟ طریقہ کار کیا ہو گا؟ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ کیس میں 627 سے زائد افراد کیخلاف تفتیش ہو گی یہی ہمارا مقصد تھا کہ حکومت کا م¶قف سامنے آنا چاہئے۔ 6 سال ہونے والے ہیں مگر کیس میں کوئی پراگریس نہیں پہلے بھی حکومت یہی کہتی تھی کہ بتایا جائے کہ معاملے میں حکومت نے کچھ کرنا ہے کہ نہیں کرنا؟ عدالتیں محض تاثرات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتیں پریس کا اپنا تاثر ہے ہم نہیں چاہتے کہ وہ اس بات سے خائف رہیں کہ انہیں عدالتی نوٹس جاری ہوا ہے مگر ہر چیز کو بیلنس ہونا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق دائر متفرق درخواستوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے وفاقی حکومت کا ایک صفحہ پر مبنی جواب عدالت میں پیش کیا۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے تین نومبر اقدامات کے حوالے سے وفاقی حکومت آئین کے مطابق کارروائی کرے گی سیاسی جماعتوں ودیگر سے مشاورت کے لیے عدالت 30 دن کی مہلت دے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ اپنا موقف واضح کریں اس سے اچھا م¶قف تو نگران حکومت نے دیا تھا حکومت ملوث افراد کے خلاف کیا اقدام کرے گی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت سینٹ کی منظور قرارداد کے تحت کارروائی کے لیے تیار ہے ۔ 1973ئ‘ 1976ئ‘ 1994ءسکیشن فور کے تحت سپیشل کورٹ قائم کرے گی پراسیکوٹر مقرر کرے گی ثبوت شواہد اکٹھے کرے گی یہ بین الاقوامی ایشو ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ معاملے میں مشرف کی معاونت کرنے والوں کی طویل فہرست ہے جمیل ملک کی درخواست میں ان کی تفصیلات موجود ہیں یہ 627 سے زائد لوگ ہیں جن کے خلاف تفتیش ہونا ہے، درخواست گذار جمیل ملک نے بتایا کہ ان کی درخواست میں 481 معاونت کاروں کے ناموں کی تفصیل ہے جسٹس جواد نے کہا کہ موجودہ اور سابقہ حکومت کے م¶قف میں کیا فرق ہے اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گذشتہ اور موجودہ حکومت کے جواب میں واضح فرق ہے وزیراعظم نوازشریف نے سٹینڈ لیا ہے وفاقی حکومت ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی حکومتی مشینری کو وجود میں آئے زیادہ دن نہیں ہوئے معاملے پر مشاورت کے لئے 30 دن کی مہلت دی جائے اٹارنی جنرل نے کہا میں حکومت کے بی ہاف پر کمٹمنٹ کرتا ہوں کہ آئین توڑنے والوں کے خلاف غداری ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جسٹس جواد نے کہا کہ کیسے کارروائی کی جائے گی؟ سیکرٹری داخلہ آئین کے مطابق اس سلسلے میں کارروائی کرنی ہے عدالت کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کیا کارروائی ہو رہی ہے پھر عدالت اس پر آرڈر کردے گی۔ ایک درخواست گذار وسیم نے بتایا کہ معاملے پر انہوں نے سب سے پہلے 2007ءمیں درخواست جمع کروائی اپیل 26 جون 2009ءکو قانون کے مطابق درخواست فائل کرنے کی اجازت دے دی پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ اخبارات سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ کورٹ کیس میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہے یہ کیس مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق ہے مگر میڈیا میں مشرف غداری کیس لکھا اور پڑھا جا رہا ہے عدالت نے ہمیں سنے بغیر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت میڈیا کو پابند اور مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے احکامات صادر کرے۔ عدالت نے انہیں بھی اپنے خدشات تحریری طور پر سی ایم اے کی صورت میں عدالت میں جمع کرانے کیلئے کہا۔ درخواست گزار شیخ احسن الدین نے کہا کہ حکومت کا سٹینڈ قابل تعریف ہے۔ مشرف کا نام ای سی ایل سے نہ نکالا جائے، انہیں کیس کا فیصلہ ہونے تک زیرحراست رکھا جائے۔ میڈیا میں ان کے محفوظ راستے سے فرار کرانے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں، مشرف کے وکیل اور حکومت بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں کہ مشرف کو فرار کا راستہ نہیں دیا جائے گا جسٹس جواد نے کہا کہ میڈیا کا اپنا تاثر ہوتا ہے عدالتیں تاثر کی بنیاد پر فیصلے نہیں دیتیں عدالت اس وقت سٹینڈ لے گی جب بہت زیادہ متنازعہ قسم کا معاملہ ہو عدالت میں موجود 40، 50 صحافی 18 کروڑ عوام کی آنکھیں اور کان ہیں۔ حامد خان نے کہا مشرف کو کیس کا فیصلہ ہونے تک زیر حراست رکھا جائے۔ اکرام چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ مشرف کے خلاف 6 سال سے کچھ نہیں ہوا اب بھی کچھ نہ ہونے کا تاثر مل رہا ہے۔ پریس میں معاملے کو گول مول کر کے نمٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ درخواست گذار جمیل ملک نے کہا کہ حکومت کو مشاورت کیلئے 30 دن نہ دیئے جائیں یہ کس سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں پیپلز پارٹی سے جس نے ”ریڈ کارپٹ“ پر گارڈ آف آنر دے کر مشرف کو رخصت کیا سابق وزیراعظم گیلانی نے پارلیمنٹ کے فلور پر کارروائی کرنے کا جھوٹ بولا سینیٹ کی قرارداد کو مسترد کیا۔ عدالت نے سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی۔ آن لائن کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مشرف غداری کیس میں جواب سپریم کورٹ میں داخل کرا دیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت 3 نومبر 2007ءکو آئین کی پامالی کے مرتکب تمام افراد کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لائے گی‘ اٹارنی جنرل کی طرف سے داخل کرائے گئے جواب کے متن میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 3 نومبر 2007ءکو آئین کو پس پشت ڈالنا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ءکے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری ہے۔ وزیراعظم اپنے حلف کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کے ذمہ دار ہیں، ان کے اس حلف کے تحت ان کی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آرٹیکل 6 کے تحت اقدامات کرنے والے تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ وفاقی حکومت سینٹ کی طرف سے اس وقت متفقہ طور پر منظور کرائی گئی قرارداد کیساتھ پرعزم ہے جب وزیراعظم کی سیاسی جماعت حزب اختلاف میں تھی اب ان کی جماعت حکومت میں ہے اور اس نے اعلی معیار کے تحت قانون کی حکمرانی کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں کہ یہ محسوس نہ ہو کہ یہ ایک فاتح کا انصاف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم مشرف کے تختہ الٹنے سے متاثر ہوئے مگر وہ چاہتے ہیں کہ فاضل عدالت اور پاکستان کے عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھیں گے اور قانون کے عمل کی پیروی کریں گے۔ آئین کی روح کی بالادستی کیلئے جدوجہد اس معاملے میں بہت اہم ہے۔ وفاقی حکومت قانون کے مطابق چلے گی اور مشاورتی عمل کے ذریعے سیاسی جماعتوں میں لے گی تاکہ اس حوالے سے مزید کارروائی کے دوران پاکستان کے عوام کی اجتماعی سوچ اور دانشمندی کا واضح اظہار ہو۔