گورنر پنجاب کی ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات

پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے بلاآخر ڈاکٹر طاہرالقادری کو 9 گھنٹوں کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر کھڑے ہوائی جہاز سے اتار کر ان کو ماڈل ٹا¶ن میں واقع ان کے گھر پر پہنچا دیا اور انہیں یہ بھی یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے تمام جائز مطالبات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور میاں صاحبان سے ان کے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
سولہ اور سترہ جون کی درمیانی شب کو ماڈل ٹا¶ن میں پولیس اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کے درمیان بدترین تصادم ہونے کے چند روز بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ سے استعفیٰ لے لیا اور اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر علی کو برطرف کردیا۔ ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر ابھی تک ان کا دل رنجیدہ ہے۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا گیا جس سے حقائق عوام کے سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے کچھ دیگر اہم اقدامات کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معصوم لوگوں پر فائرنگ کرنے والوں کی فی الفور گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہ لاہور کے واقعے میں انصاف دلا کر ہی دم لیں گے۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ اور پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کی برطرفی کے اقدامات کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے ناکافی اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خود مستعفی ہوں۔ رانا ثناءاللہ صرف فیصلے منوانے والے تھے انہوں نے ہر قدم شہباز شریف اور نواز شریف کے حکم پر اٹھایا۔ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ رانا ثناءاللہ چھٹی پر گئے ہیں اور وہ چند دن بعد پھر بحال ہو جائیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے سانحہ لاہور کے ضمن میں جو اقدامات کیے ہیں وہ درست تو ہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے تحفظات بھی اپنی جگہ درست ہیں کہ یہ نہ ہو کہ رانا ثناءاللہ کچھ عرصے بعد بحال ہو جائیں یا انہیں کوئی وزارت دے دی جائے۔ اسی طرح جن پولیس اہلکاروں نے گولیاں چلائیں کیا انہیں قرار واقعی سزائیں مل سکیں گی؟ سوال یہ ہے کہ استعفوں سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ سانحہ لاہور کے ان سوالات کا جواب تلاش کرکے قرار واقعی ذمہ داروں کو سزا دی جائے کہ منہاج القرآن کے دفاتر کے بیرئیر ہٹانے کا حکم کس نے دیا؟ جبکہ عدالت نے یہ بیرئیر لگانے کی اجازت دے رکھی تھی اسی طرح گولیاں چلانے کی ہدایت کس کی تھی؟ اور وہ اسلحہ کہاں ہے جس کے ذریعے پولیس پر گولیاں چلائیں گئیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سانحہ لاہور ماڈل ٹا¶ن ایسے وقت پیش آیا کہ جب افواج پاکستان ”ضرب عضب“ کے نام سے موسوم وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملک کر وہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے جا رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں تحریک انصاف کی اس وقت خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے‘ ہونا تو یہ چاہیئے کہ تحریک انصاف اپنے صوبے میں کارکردگی دکھائے‘ صوبے کے عوام کے دیرینہ مسائل کو اولین ترجیح سمجھتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرے‘ خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ امن و امان کا قیام ہے۔ صوبے کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے برعکس تحریک انصاف اقتدار کے حصول کیلئے جمہوریت سے ہٹ کر راستے اختیار کرتی نظر آرہی ہے اور اس نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سنگین تنازعے کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہمیں آخر یہ طے کرنا ہی پڑے گا کہ اس ملک کو کس نظام کے تحت چلانا ہے۔ ہماری تاریخ میں تین آمریتیں ملک کو ناقابل نقصان پہنچا چکی ہیں۔ کیا ہم چوتھے مارشل لاءکے متحمل ہوسکتے ہیں؟ یہ سوال ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ آخر سیاست دان ہی سیاستدانوں کے خلاف کیوں استعمال ہوتے ہیں؟ اگر تحریک انصاف ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف کوئی اقدام اٹھاتی ہے تو اس کا لازمی اثر وزیرستان میں جاری آپریشن پر بھی پڑے گا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عوامی تحریک اور دیگر سیاسی جماعتیں ایسا راستہ اختیار کریں کہ جس سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خدشہ ہو اور نہ ہی وزیرستان میں جاری آپریشن کے متاثر ہونے کا۔ تاکہ اگر سیاسی جماعتیں اس واقعہ کی آڑ میں حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں تو وہ اپنے خواب کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اگر عوامی تحریک اور تحریک انصاف کا بھی یہی ایجنڈا ہے تو اس میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اس لئے کہ اب پاکستان کے عوام باشعور ہو چکے ہیں اور وہ قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو یکسر مسترد کردیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...