ملتان ایم کیو ایم کے برادرم راؤ خالد سے کبھی کبھی بات ہوتی رہتی ہے۔ وہ بہت مخلص اور سرگرم کارکن ہیں دوست آدمی ہیں۔ میں اس سلسلے میں برادرم افتخار رندھاوا اور راؤ خالد کا بہت قائل ہوں۔ راؤ خالد نے بتایا کہ الطاف حسین بھائی نے میرے کالا باغ ڈیم کے لیے دردمندانہ کالم کے بعد کہا ہے کہ سندھی عوام کے تحفظات دور کریں اور کالا باغ ڈیم ضرور بنائیں۔ یہ کام سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف ہی کر سکتے ہیں۔ آج برادرم ایاز امیر نے بھی اپنے مخصوص انداز میں جنرل راحیل کی تعریف کی ہے اور سیاستدانوں کی جمہوریت پسندی کا پول کھولا ہے۔ الطاف بھائی سے گذارش کہ تحفظات سندھی عوام کے نہیں ہیں۔ سندھی سیاستدانوں کے ہیں جو کالا باغ ڈیم کی جعلی مخالفت کا ڈھونگ رچا کر سندھی عوام سے ووٹ اور بھارتی حکام سے نوٹ لیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب کالا باغ ڈیم بنے گا اور یہ معرکہ آرائی جنرل راحیل شریف کریں گے۔ وہ بلاشبہ اس وقت پاکستان کے محبوب ترین لیڈر ہیں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہیں عسکری لیڈر ہیں۔ سیاسی لیڈر کوئی ہے بھی نہیں۔ جنرل کے لیے میں نے ایک جملہ لکھا جس کے لیے مجھے دوستوں نے محبت سے نوازا۔
’’آپ براہ راست سیاست میں نہ آئیں مگر سیاست کو تو راہ راست پر لائیں۔‘‘
مجھے کرنل عبدالرزاق بگتی نے اپنی کتاب بھیجی ہے ’’پاکستان کے آبی وسائل‘‘۔ (کالا باغ ڈیم، تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم۔) کتاب کا انتساب ہے ’’اپنے پوتوں پوتیوں کے نام کہ ان کا مستقبل خوشحال پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘ میرے بھائی امن پسند انقلابی سیاسی دانشور فرخ سہیل گوئندی نے ایک کتاب بھجوائی ہے۔ ’’ایم آر ڈی‘‘ اس میں سیاستدانوں کی منافقتوں کا احوال ہے جو انہوں نے صدر جنرل ضیاالحق کے خلاف تحریک نظام مصطفی میں کیں۔ نظام مصطفی کہاں ہے؟
مجھے برادرم آغا مشہود شورش کاشمیری سے کہنا ہے کہ طلال چودھری کو جس انداز میں تم نے کالم میں پیش کیا ہے اس کا نام جلال چودھری ہونا چاہئے۔ میں سوچتا ہوں کہ ملال ایک خوبصورت لفظ ہے۔ غم کے لئے یہ لفظ بہت مناسب ہے کہ غم بھی خوبصورت لفظ اور جذبہ ہے۔
مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے کہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے
طلال چودھری کا نام زوال چودھری ہونا چاہئے کہ اس زوال کو زوال نہیں ہے۔ اگر ابھی ق لیگ کی حکومت آ جائے تو زوال چودھری پھر بھی ایک بڑبولہ سیاستدان ہو گا۔ طلال چودھری اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں کے لئے مبارک ہو ہمیشہ کے لئے؟
پانی و بجلی کے علامتی وزیر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں لوڈ شیڈنگ اور کراچی میں سینکڑوں مرنے والوں کے ’’سوگ‘‘ میں تقریر کی جو قومی اسمبلی میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور دوسرے ’’عمرانیوں‘‘ کے سینہ پھلا کر آنے والوں کے لئے کی گئی تھی۔ شرم حیا غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس لوڈشیڈنگ کے جواب میں خورشید شاہ نے جو تقریر کی اس کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ شرم حیا غیرت بھی کوئی چیز ہے؟ وہ وضاحتیں کر رہے تھے جیسے کائرہ اور شیری ’’صدر‘‘ زرداری کی ’’وضاحتیں‘‘ کر رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی مسلسل خواجہ آصف کے کان میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ پٹرول کی قلت کے لئے میری پالیسی کو سامنے رکھو۔ کہہ دو کہ اگر نواز شریف کہیں تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ بے فکر رہو نواز شریف کبھی نہیں کہیں گے؟
میں نہیں سمجھتا تھا کہ خواجہ آصف اتنے بے رحم ہیں۔ عابد شیر علی کو خورشید شاہ نے بچہ کہہ کر نظرانداز کیا۔ یہ بچہ بہت ہی بچہ ہے۔ یہ بڑی بڑی شرارتیں کرنے لگا ہے مگر کیا کریں کہ نواز شریف کا عزیز ہے؟ ایک عورت کراچی میں کسی ٹی وی چینل پر کہہ رہی تھی کہ یہ حکومت ہے؟ یہ بھی اس نے کہا کہ شرم نہیں آتی۔ حکومت کو۔ خواجہ آصف کی وجہ سے یہ دن بھی نواز شریف کو دیکھنا تھا۔ ایک جملہ قومی اسمبلی میں بھی خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ان کی اپنی لوڈ شیڈنگ ہونے والی ہے؟
شہباز شریف نے ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے جو سچی باتیں کہی تھیں۔ ان کے لئے بڑا مزا آیا تھا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اس وقت باقاعدہ صدر تھے۔ میں تو اب بھی انہیں ’’صدر‘‘ زرداری کہتا ہوں۔ میں تمہیں کھمبے سے لٹکائوں گا اور تمہارے پیٹ سے لوٹے ہوئے پیسے نکالوں گا۔ یہ شہباز شریف نہیں کر سکے کہ زرداری اب صدر نہیںہیں۔ اگر وہ صدر ہوتے تو شہباز شریف یہ کام شاید کر گزرتے۔ وہ یہ قومی کام نہیں کر سکے۔ شہباز شریف کو پوری قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری سے معافی مانگ کر انہوں نے پوری قوم کو رنجیدہ کر دیا ہے۔
اب جو ’’صدر‘‘ زرداری نے فوج کے خلاف بڑھکیں لگائی ہیں تو روس میں پاکستان سے فون کر کے نواز شریف نے جنرل کو یقین دلایا ہے کہ ہم زرداری کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان سے ملنے جنرل صاحب خود چلے آئے ہیں مگر جب ایک بزعم خود عظیم اینکر ایک جعلی اور مصنوعی حملے میں زخمی بھی نہیں ہوا تھا اس نے آئی ایس آئی چیف پر جھوٹا الزام لگایا اور اس نے اپنے ’’ٹی وی چینل‘‘ پر حاضر سروس جنرل کی تصویر ایک ملزم کے طور پر بار بار دکھائی تھی۔ نواز شریف اس کی ’’عیادت‘‘ کے لئے کراچی گئے تھے۔ دوسرے دن جنرل راحیل شریف آئی ایس آئی کے دفتر چلے گئے تھے۔ نواز شریف کو اب اصل صورتحال کی سمجھ آ گئی ہے۔ اب زرداری صاحب نے کہا ہے کہ بی بی شہید کا ایک قاتل بچا ہوا ہے۔ اور وہ ایک جنرل ہے۔ جنرل لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسے وہ حاضر سروس جنرل ہو۔ رہی تین سال رہنے کی زرداری والی بات ہر دلعزیز شیری رحمان کہتی ہیں یہ تین سال تو نواز شریف کے ہیں۔ وہ واقعی تین سال ہیں اور اس کے بعد ہماری باری ہے اور ہمیشہ رہنا ہے۔ باری باری۔ اگلے جمہوری دور میں ’’صدر‘‘ زرداری کی وزیراعظم شیری رحمان ہوں گی۔ کیپٹل اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل کو مبارکباد دینا ہے کہ اس نے شہید بی بی بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کو یادگار بنا دیا ہے ایک بہت زبردست ڈاکو مینٹری چلائی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چینل پیپلز پارٹی یعنی زرداری پارٹی کا ترجمان ہے۔ جو کچھ بھی ہے اس موقع پر اس نے حق ادا کر دیا ہے۔ اس چینل کی ایک اینکر جو بہت تیز تیز بولتی ہے اور مہمان کو موقع بھی بولنے کا نہیں دیتی وہ چینل کے لئے بہترین ملازمہ ہے؟ بولنے میں بھی تیز رفتاری ہی سب سے بڑی کوالی فیکیشن ہے۔ برادرم شیخ ریاض کہتے ہیں کہ میں زرداری کا عاشق ہوں۔ اب تو وہ امیر کبیر ہو گئے۔ عاشق زار ہوں گے۔ بھلا یہ تو بوجھو کہ عاشق زار و قطار کون ہے؟ ڈاکٹر قیوم سومرو۔ جواب بالکل ٹھیک ہے۔ وہ بھی ارب پتی ہے۔ انوکھی اور انہونی شاعرہ ناز فاطمہ کہتی ہیں:
سنو اے رات کے فرماں روائو
اندھیرا دن میں ڈھلتا جا رہا ہے