تہران (بی بی سی) ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای نے جوہری پروگرام پر معاہدے کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل مغربی ممالک کے مطالبات پر سخت موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ایران صرف اسی صورت میں اپنی جوہری تنصیبات کو ختم کریگا جب تک ا±س پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں۔ انھوں نے آئندہ دس سالوں تک جوہری پروگرام میں تحقیق اور ترقی روکنے اور عسکری علاقوں کے معائنے کی شرائط کو مسترد کیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال اپریل کو طے پانے والے عبوری معاہدے میں ان شرائط پر اتفاق ہوا تھا۔ رہبر اعلیٰ کے اس خطاب کے بعد ایران کے جوہری مذاکرات کاروں کا دائرہ اختیار بھی محدود ہو گیا ہے۔ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان حتمیٰ معاہدے کی خودساختہ مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے۔ رہبر اعلیٰ کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای کی رائے کو ایران کے سرکاری معاملات میں حتمیٰ سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ، فرانس، چین، برطانیہ، روس اور جرمنی چاہتے ہیں کہ جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے کے لیے ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیوں کو روک دے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ ا±س کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے حلقوں کی تنقید کے باوجود بھی آیت اللہ خامنہ ای نے جوہری مذاکرات کی حمایت کی ہے لیکن انھوں نے مذاکرات کے لیے کچھ سرخ لکریں واضح کر دی ہیں۔ سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ جوہری تحقیق اور ترقی کو دس سال تک روکنے کی مجوزہ شرط کو مسترد کر دیا۔ حالانکہ معاہدے کے لیے طے ہونے والی عبوری شرائط میں ان شقوں پر اتفاق کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم دس سال کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ ہم نے مذاکراتی ٹیم کو بتا دیا ہے کہ اتنے سال کی پابندی کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔ تحقیق و ترقی پابندی کے دنوں میں بھی جاری رہے گی۔‘ رہبر اعلیٰ نے ایران کی معیشت پر عائد پابندیاں ا±ٹھانے کے طریقہ کار کو امریکہ کا ’مشکل فارمولا‘ قرار دیا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ’پابندیاں ختم کرنے کو ایران کے معاہدے پر عمل درآمد سے مشروط نہ کیا جائے۔‘ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کی ایران کی عسکری علاقوں تک رسائی کے مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے تحقیق کر رہا ہے۔ ’امریکہ کا ہدف ملک کی جوہری صنعت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ وہ ہم پر دباو¿ رکھنا چاہتے ہیں اور پابندیاں ختم نہیں کرنا چاہیے۔‘ اس سے قبل منگل کو ایران کی پارلیمنٹ نے قانونی مسودے کی منظوری دی تھی جس کے تحت کسی مغربی طاقتوں سے معاہدے کے باوجود بھی عسکری علاقوں اور حساس تنصیبات تک رسائی پر پابندی ہو گی۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ حساس مقامات کا معائنہ معاہدے کی اہم شرط ہے۔