آبی مسائل کے حل کی تلاش : مواقع اور امکانات (آخری قسط)

Jun 25, 2016

ظفر محمود

گذشتہ 25 اقساط میں پانی کے انتظام و انصرام کے حوالے سے اُن تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہماری موجودہ نسل کو درپیش ہیں اور جن کا سامنا ہماری آئندہ نسل کو بھی رہے گا۔ اِسی دوران علم میں آیا اور عالمی تجربات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ آبی مسائل کا حل سیاسی قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان جیسے ملک میںلوگ آبی مسائل کے بارے میںبہت جذباتی ہوجاتے ہیں لہٰذا یہ گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں اور ان مسائل سے نبردآزما ہونا زیادہ مشکل ہے۔ ہمارے وفاقی نظام میں پانی کے معاملات صوبائی دائرہ اختیار میں شامل ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں تمام صوبوں کیلئے یکساں لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ اِسی مقصد کے پیشِ نظر مضامین کے اس سلسلے میں دیانتداری کے ساتھ اس بات کی کوشش کی گئی کہ کالاباغ ڈیم کے بارے میں گذشتہ 25 سال سے جو غلط تصورات یا واہمے ہیں، اُنہیں دور کیا جائے۔ چنانچہ اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے حقائق پر مبنی معلومات اِس بارے میں بہتر ذہنی ہم آہنگی کا باعث ثابت ہوں گی۔اورکالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کسی معاہدے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے حقیقی آبی مسائل حل کرنے کیلئے بھی کوشش کر سکتے ہیں۔ مذکورہ مقصد کے حصول کیلئے کچھ تجاویز حسبِ ذیل ہیں:

-1مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی انتظام کے تحت وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی ملک کو درپیش آبی مسائل کا جائزہ لے۔-2 وزرائے اعلیٰ کی کمیٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی جائے کہ وہ درج ذیل مسائل کا حل تلاش کرے۔
الف۔پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کا بنظرِ عمیق جائزہ لیکر سندھ طاس میں پانی کے بہاﺅ پر اُس کے اثرات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ایک طویل مدتی لائحہ عمل کی تشکیل۔ ب۔پانی کی قیمت کا تعین کیا جائے اور بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے حقیقی سطح پر لانا۔ ج۔زمین سے پانی کشید کرنے کیلئے اصول و ضوابط وضع کرنا۔ د۔صنعتی، زرعی اور شہری استعمال کی وجہ سے پانی کو آلودگی سے بچانے کیلئے لائحہ عمل ر۔آبادی کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے پانی کی دستیابی اور معیار پر مضر اثرات کا جائزہ اور انکے تدارک کیلئے اقدامات۔
وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی ، اِن مقاصد کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔ جو اُنہیں متعلقہ معلومات اور اعداد و شمار مہیا کرنے کے ساتھ ، پانی کے انتظام و انصرام کے بارے میں عالمی سطح پر رائج طریقہ کار کے بارے میں آگاہ کریں اور قانونی ڈھانچے کے تحت عملدرآمد کا نظام وضع کرنے میں کمیٹی کی معاونت کریں۔جہاں تک کالاباغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنے کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اس منصوبہ کے بارے میں اقتصادی اور تیکنیکی حقائق کی بجائے مخصوص علاقوں میں عمومی تصورات اور وسوسوں کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اس بات کی کس طرح وضاحت کرسکتے ہیں کہ دیامربھاشا ڈیم کیوں قابل قبول ہے اور کالاباغ ڈیم کیوں قابل قبول نہیں ہے؟ (دیامر بھاشا ڈیم اور کالاباغ ڈیم کا تقابلی جائزہ واپڈا کی ویب سائٹ www.wapda.gov.pk پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم 1991 ءکے معاہدے کے مطابق کی جاتی ہے اور ان دونوں ڈیموں کا پانی کی تقسیم میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ دریائے سندھ سے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم مختلف بیراجوں کے ذریعے کی جاتی ہے جن میں جناح، چشمہ، تونسہ، گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج شامل ہیں۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ بات قابلِ فہم نہیں ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی حمایت اور کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی بنیاد آخر کار کیا ہے؟ اِس حوالے سے ممکنہ طور پر ایک وضاحت یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کثیر سرمایہ صرف کر کے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم تعمیر کرلینے کے بعد، فطری طور پر اس ڈیم کو ایسے دنوں میں بھی بھرنے کا خیال آسکتا ہے جب دریا میں پانی کا بہاﺅ کم ہو۔ اگر ایسا کیا جائےگا تو زیریں علاقوں میں پانی کے بہاﺅ میں کمی واقع ہو جائےگی۔ اصل مسئلہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اندر فیصلہ سازی کے عمل سے تعلق رکھتا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے آبی ذخائر سے پانی کے اخراج کا اختیار ارسا کے پاس ہے۔ ارسا میں فیصلہ سازی کثرتِ رائے کی بنیاد پر کی جاتی ہے جبکہ صوبہ سندھ اِس ضمن میں بعض حفاظتی اقدامات کا متقاضی ہے۔ ایک زیریں صوبے کی حیثیت سے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سندھ کی جانب سے مناسب اقدامات کا یہ مطالبہ جائز ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے کیلئے نومبر 2003 ء میں آبی وسائل کے حوالے سے ایک تیکنیکی کمیٹی قائم کی۔ اِس کمیٹی کے 8 ارکان تھے، چاروں صوبوں سے دو دو ارکان نامزد کئے گئے تھے جبکہ جناب اے این جی عباسی کو اِس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ 25 اگست 2005 ءکو جب اس کمیٹی کی رپورٹ کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو یہ بات سامنے آئی کہ بعض امور پر چیئرمین اور کمیٹی کے 7 ارکان میں اختلافِ رائے ہے اور اسی سبب کمیٹی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی۔جناب اے این جی عباسی نہایت قابل انجینئر ہیں اور وہ سندھ میں وزارتی عہدے پربھی کام کر چکے ہیں۔انہوں نے بطورِ چیئرمین ٹیکنیکل کمیٹی مذکورہ رپورٹ میں اپنی رائے کے ساتھ ساتھ ساتوں ارکان کے نقطہ¿ نظر کو بھی شامل کیا۔ سندھ میں اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ رپورٹ میں شامل جناب اے این جی عباسی کی رائے صوبہ سندھ کے مو¿قف کی درست عکّاسی کرتی ہے۔چنانچہ مذکوہ پس منظر میں اس بات کی سفارش کی جاتی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی انتظام کے تحت قائم کی جانے والی وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی کے ضوابطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) میں درج ذیل امو ر کو بھی شامل کیا جائے:
-1الف۔آبی وسائل کے بارے میں ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ میں شامل جناب اے این جی عباسی کی رائے۔ ب۔سندھ سے تعلق رکھنے والے قابلِ احترام انجینئر جناب ادریس راجپوت حکومتِ سندھ میں سیکرٹری آبپاشی اور بجلی کے عہدے پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور پانی کے مسائل پر سندھی اخبارات میں اکثر و بیشترلکھتے بھی رہتے ہیں۔ ایک غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کی جانب سے انہیں2011 میں تشکیل دی گئی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ پلڈاٹ کی رپورٹ"Background Paper on Inter-Provincial Water Issues in Pakistan" میں شامل جناب ادریس راجپوت کی سفارشات کو بھی وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی کے ضوابطِ کار میں شامل کیا جائے۔
(جناب اے این جی عباسی کا نقطہ¿ نظر اور جناب ادریس راجپوت کی سفارشات واپڈا کی ویب سائٹ www.wapda.gov.pk پر دستیاب ہیں)۔ دیگر ضوابطِ کار میں درجِ ذیل امور شامل کئے جاسکتے ہیں:
-2سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کیلئے درکار پانی کا مسئلہ اور کوٹری بیراج سے زیریں جانب مستقل طور پر پانی کا اخراج۔ -3دریائے سندھ کی کھاڑی میں تحفظِ حیات اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا۔ -4خیبرپختونخوا کی حکومت کو یہ پیشکش کہ وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے باعث پشاور کی وادی میں ممکنہ سیلاب اور سیم و تھور کے بارے میں اپنے خدشات کی روشنی میں تحقیقی مطالعات کیلئے بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل کا تقرر کرے۔ -5 نوشہرہ کے مقام پر سیلاب سے بچاﺅ کیلئے مہمند ڈیم کی تعمیر موثرترین اقدام ہوسکتا ہے۔ چنانچہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کرتے وقت مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے مناسب فنڈز بھی مختص کئے جائیں۔ -6پن بجلی کا خالص منافع ۔ غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی ایکنک میں منظوری کے وقت پنجاب کی قیادت نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس منصوبے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے پن بجلی کے خالص منافع کے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ کالاباغ ڈیم کے معاملے پر بھی پنجاب کی قیادت ایک تخصیص کیساتھ اسی فراخ دلی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم سے حاصل ہونے والا پن بجلی کے خالص منافع کا استعمال مشترکہ مفادات کونسل کی صوابدید پر ہو، اور وہ اسے درج ذیل امور کی انجام دہی میں بروئے کار لائے:
الف۔کالاباغ ڈیم کے آبی ذخیرے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونیوالے لوگوں کی اقتصادی فلاح و بہبود۔ ب۔چشمہ رائٹ بنک لِفٹ کی تعمیر کے بعد پانی لِفٹ کرنے کیلئے درکار بجلی کے انتظام و انصرام پر اُٹھنے والے اخراجات۔ ج۔دریائے سندھ کی کھاڑی میں حیوانات اور نباتات کے تحفظ اور نہروں کو پختہ کرنے کے منصوبوں کیلئے فنڈز کی فراہمی زیرنظر قسط ، مضامین کے اِس سلسلے کی آخری کڑی ہے اور اس قسط میں تجاویز ذاتی حیثیت میں اور خلوصِ نیّت کیساتھ پیش کی گئی ہیں ۔ آبی مسائل کے حل میں اللہ تعالیٰ ہمارا مددگار اور رہنما ہو۔
( نوٹ: چیئرمین واپڈا ظفر محمود کی جانب سے تحریر کئے گئے مضمون کی یہ آخری قسط تھی۔ اگر قارئین 26 اقساط پر مشتمل مضمون کے مندرجات کے بارے میں مزید معلومات یا وضاحت چاہیں، تو وہ اس سلسلے میں ہمیں تحریر کر سکتے ہیں۔ ہم اُنکی تحریر چیئرمین واپڈا تک پہنچا دینگے۔)

مزیدخبریں