لاہورکے میکلورڈ روڈ پر واقع لکشمی چوک کی بغل میں فلمی دنیاکی علامت رائل پارک سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کبھی نہیں رہا۔یہ فلمی دنیا کا ایک بڑا کاروباری مرکز تھا۔فلمسازوں اور تقسیم کاروں کے علاوہ یہاں پرفلم کی کامیابی وناکامی کے اندازے لگائے جاتے۔ فلم رائٹر، نغمہ نگار، مکالمہ نگار اور ڈائریکٹر عمومی طور یہاں کے چائے خانوں اور ریستورانوں میں پائے جاتے۔ فلمی پوسٹر چھاپنے کے پریس اور بڑے بڑے دیوقامت "فلمی بورڈ" بنانے کے ایسے ایسے اعلیٰ فنکارتھے کہ ہر تصویر ہر سائز میں ہاتھ سے بناتے اور یہ سینماﺅںکے مرکزی دروازوں اور پیشانیوں کی زینت بنتے۔ کھانے پینے کے سستے مراکز یہاں موجود ہوتے۔ مہنگا ریسٹورنٹ رائل پارک میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہزاروں خاندانوں کی روزی اس سے وابستہ تھی۔ پھر یہ بدقسمت ملک ضیاءالحق کے قبضے میں آ گیا تو فلمی دنیا کی رونقیں پہلے کم ہوئیںاور پھر ختم ہو گئیں۔ روزگار چھنے سو چھنے لوگ سستی تفریح سے بھی محروم ہو گئے۔ اسلم گورداسپوری نے اس صورت حال کا نوحہ لکھا کہ
دیکھا اس کے عہد ستم میں کیا فتنے ایجاد ہوئے
جتنے کاروبار تھے دل کے کفر ہوئے الحاد ہوئے
سستی تفریح کی جگہ سستے نسثوں، سستے سیاستدانوں، سستے دانشوروں اور سستے علماءسو نے لے لی۔مگر اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھی "تحریک بحالی جمہوریت" (M.R.Dµ) نے خون جگر سے جدوجہد کے دیپ جلائے اور ملک بھر میں انہیں روشن کیا تو رائل پارک میں واقع چوہدری صفدر علی بندیشہ کا فلم ڈسٹری بیوشن آفس خاص طور پر تحریک استقلال کے زیرزمین راہنماﺅں اور کارکنوں کا مرکز بن گیا۔ چوہدری صفدر کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ اس لئے فیصل آباد سے بھی چوہدری عنائت گل کے علاوہ دیگر کئی دوست احباب اور تحریک استقلال کے اشتہاری ومفرور ساتھی یہاں آتے اور امان پاتے۔ چوہدری صفدر چونکہ تحریک استقلال پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات بھی تھے اس لئے انہیں پارٹی امور کے بہت سے معاملات کا امین بن کررہناپڑتا جس میں وہ سرخروہوئے تب نفیس صدیقی تحریک استقلال کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ کراچی سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو نام بدل کرلاہور آگئے اور چوہدری صفدرکے دفترمیںبیٹھ کرتحریک استقلال کے اہم امور کی نگرانی کرتے رہے۔ "ضیائی سرکار" کا ظلم ،تعدی سے بھرپور دورکوڑے ٹکٹیاں، شاہی قلعے کی اذیتیںاورکوٹ لکھپت جیل کے قصائی خانے میں بدل کرعوام کو سیاسی غلام بنانے میں مصروف تھا۔کہ ایسے میں(M.R.D)نے عوام کوجگانے اور ضیاءالحق کا مقابلہ کرنے کا مقدس فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کیااس لئے (M.R.D) کے تمام راہنماﺅں کاناطقہ بندکرنے کیلئے انکے مقامی شہروں سے مارشل لاءکے ضابطہ13/33کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے۔جن کی اکثریت رائل پارک کا رخ اس لئے کرتی کہ سرکاری چغل خوروں کو ابھی اسکی سن گن نہیں تھی۔ ویسے بھی محل وقوع کے اعتبار سے یہ بڑا موزوں مقام تھا۔ ساتھ ہی دو چار فرلانگ کے فاصلہ پر نسبت روڈ پر تحریک استقلال کے پنجاب کے صدر ملک حامد سرفراز کی رہائش تھی۔ ہائی کورٹ بار جو سید افضل حیدر صاحب کی صدرات میں (M.R.D)کی تحریک کا بڑا مرکز بن چکی تھی۔ وہ بھی دس پندرہ منٹ کی پیدل مسافت پر تھی جہاںسعید آسی صاحب جو نوائے وقت کے کورٹ رپورٹر تھے۔ان سے ہر قسم کی معلومات مل جاتیں رشید قریشی، جہانگیر بدر، کامریڈ افتخار شاہد، راجہ ذوالقرنین اور MRDکے دیگر جانثاروں سے بھی باہم ملاقات کا موقع مل جاتااور جس سے ہمارا فاصلہ اور منزل کھوٹی نہ ہوتی بلکہ نیاعزم اور نئے راستے نظر آتے اور تحریک استقلال کے سب دوست دوبارہ رائل پارک اکٹھے ہوکر آئندہ کا لائحہ عمل بناتے۔ میں تقریبا سات ماہ زیر زمین رہااور اپنے دوستوں شیخ خالد کے پاس نیشنل بینک کالونی سمن آباد کچھ عرصہ گوجرانوالہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر بار ملک باسط کے بھائی اور معروف شاعرمقسط ندیم (جو اب امریکہ منتقل ہوچکے ہیں)کے ہاں شاعروں ادیبوں کی بستی ریواز گارڈن کے علاوہ باقی وقت جو(M.R.D)اور تحریک استقلال کیلئے کام کرنے کا ہوتا وہ یہیں رائل پارک میں چوہدری صفدر کے دفتر میں بسر ہوتا۔نفیس صدیقی کا تو مستقل ڈیرہ یہیں تھا۔کوئٹہ سے سابق سینئر خدائے نور کے علاوہ لاہور سے تحریک استقلال کے راہنما سید منظور گیلانی ،چوہدری طارق عمر،ظفرگوندل اور مطیع اللہ گھوڑے کا آناجانا بھی رہتا ۔سیاسی پروگرام بنتے ،پمفلٹ چھاپے جاتے جوکوئی بھی پریس والا چوہدری صفدر کے علاوہ کسی کو چھاپ کردینے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ فلم کے حوالے سے اس انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ قرب وجوار میں سبھی کھانے پینے کی دکانیں اور ریسٹورنٹس بڑے سستے مگر روائتی لاہوری "کھابوں "سے سجے ہوتے۔مصیبت تو تھی کبھی کپڑے گندے ہوتے تو کبھی کئی کئی دن کی بڑی ہوئی شیو۔کئی دوستوں نے تو مجھ سمیت داڑھیاں بھی بڑھا لیں۔ سب دوستوں پر پیغمبری رقت چل رہا تھا مگر زبان پر شکائت نام کا کوئی حرف نہ آیا۔ روزانہ سنتے اور پڑھتے کہ آج فلاں شہر میں سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ لاہور میں تو صحافیوں اور وکلاءتک کو ٹکٹیوں پر باندھ کرانکے خون اور گوشت کا تماشہ دیکھا گیا۔مگر اس سب کے باوجود مجیب الرحمان شامی صاحب الطاف حسین قریشی، مصطفے صادق، احمد سعید کرمانی اور جماعت اسلامی کے وکلاءصحافیوں اور وکلاءکے دفاع میں آنے کی بجائے محض یہ ثابت کرنے تلے ہوئے تھے کہ ضیاءالحق کو اللہ نے بھیجا ہے۔ وہ امیر المومنین اورپوری مسلم دنیا کا واحد نجات دہندہ ہے۔ اس مکروہ دھندے کیلئے وہ کبھی شہر مسار نہ ہوئے۔ حتیٰ کہ آج جب ضیاءالحق کی ہڈیاں بھی گل سڑ چکی ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل اس کی محبت سے اتنے لبریز ہیں کہ ملک کو خانہ جنگی، ہیروئن، کلاشنکوف، مہاجرین مذہبی جنونیوںاور فکری ابہام میں مبتلا کرنے والے ضیاءالحق کی سیاسی اولاد نواز شریف‘ شہباز شریف اور ہمنواﺅں کی شان میں ترانے گاتے ہیں۔
ماضی کی طرف مڑ کردیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنے عظیم لوگ تھے۔ جہنوں نے پہلے (M.R.D) کے اتحاد سے ضیاءالحق کا مقابلہ کیا اور اب اسکی سیاسی اولاد کے پنجے سے ملک کو چھڑانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔