وزیراعظم نریندر مودی نے جتن تو بہت کئے کہ کسی طرح بھارت نیوکلیئر سپلائیر گروپ میں شامل ہو جائے۔ امریکہ کی تو بھارت کو آشیر باد حاصل ہے اور امریکہ کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس بھی بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی حمایت کر رہے ہیں ۔ بھارت کے سفارت کار 48 رکنی نیوکلیئر سپلائر گروپ کے کلب میں شمولیت کیلئے کئی سال سے لابنگ کر رہے ہیں۔ چین کو حمایت پر آمادہ کرنے کیلئے بھارتی وزیراعظم زیندر مودی نے خود بیجنگ کا دورہ کیا ۔ ایک ہفتہ پہلے بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے بیجنگ کا غیر اعلانیہ دورہ کرکے ایک مرتبہ پھر چین کی این ایس جی میں شمولیت کیلئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ چین کو رام نہیں کرسکے۔
جنوبی کوریا کے دارلحکومت سیول میں ان دنوں نیوکلیئر سپلائر گروپ کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں بھارت کی طرف این ایس جی کلب میں شمولیت کی درخواست پر غور ہوا۔ اس اجلاس میں غیر متوقع طور پر بھارت کو یہ صدمہ اٹھانا پڑا کہ برازیل نے جسے بھارت اپنا حلیف سمجھتا تھا اس نے بھی بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی مخالفت کر دی۔ برازیل خود بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہے۔ چین کے علاوہ ترکی‘ آئرلینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی افریقہ نے بھی بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف ہیں امریکہ نے ایڑی جوٹی کا زورلگایا ہے کہ سیول اجلاس میں بھارت کو اس کلب میں شامل کر لیا جائے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ نے این ایس جی کے ارکان کو خط بھی لکھے کہ بھارت کی حمایت کی جائے لیکن یہ حربہ بھی کامیاب نہیں ہوا۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنوانے کا ایک مقصد عالمی سطح اس کے قد کاٹھ میں اضافہ کرنا تھا۔ دوسری طرف این ایس جی میں شامل ہونے سے بھارت کو کئی دوسرے فوائد مل سکتے ہیں۔ رکن بننے کے بعد بھارت ایٹمی شعبہ میں تجارت کرنے کا اہل ہو جائے گا اور اسے کئی دوسرے فوائد حاصل ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ فرانس اور دوسرے ممالک بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ گروپ 1974ءمیں بھارت کی طرف ”مسکراتا بُدھا“ کے نام سے کئے جانے والے ایٹمی تجربہ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ بھارت نے 1974ءکے ایٹمی دھماکے ذریعے یہ پیغام دیا تھا کہ پُر امن مقاصد کیلئے حاصل کی جانے والی ایٹمی ٹیکنالوجی ‘ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ بھارت نے پُرامن مقاصد کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے بین الاقوامی حفاظتی اقدامات SAFE GUARDS کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شروع کی۔ بھارت جس نے IAEA کے حفاظتی اقدامات کو دھوکہ دے کر فوجی مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال کی اسے امریکہ نے 2008ءمیں این ایس جی میں شمولیت کے لئے اجازت دے دی۔ چین بھارت کی این ایس جی گروپ میںشمولیت کی اس بناءپر مخالفت کر رہا ہے کہ خود امریکہ نے یہ اصول طے کیا تھا کہ کسی ایسے ملک کو جس نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے اسے این ایس جی میںشامل نہیں کیا جا سکتا لیکن اب اپنے مفاد کی خاطر وہ بھارت کو جس نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے اور آئی اے ای اے کو بھی دھوکہ دیا اسے اب این ایس جی میں داخل کرنے کے لئے زور لگا رہا ہے۔ بھارت اس اہم کلب میں کیوں شامل ہونا چاہتا ہے این ایس جی صرف ایٹمی اور سٹریٹجک ہتیھاروں کا ادارہ نہیں ہے بھارت کی اس میں شمولیت کے پاکستان کے لئے دوسرے مضمرات بھی ہیں جو ممالک این ایس جی کے ارکان ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبہ میں تجارت نہیں کر سکے گا۔
پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی مواد کے ذخیرہ کو تحفظ دینے کا ریکارڈ بھارت کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ پاکستان پر ڈاکٹر اے کیو خان کی طرف سے ایٹمی مواد برآمد کرنے کا الزام ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں پاکستان کا کوئی ایٹمی مواد نہ تو چوری ہوا ہے اور نہ ہی اس کے کسی ری ایکٹر میں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں ایٹمی مواد کے چوری ہونے اور ایٹمی ری ایکٹروں اور دوسری تنصیبات میں کئی حادثات ہو چکے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ اقتصادی تجارتی اور سٹریٹجک مفادات ہونے کی وجہ سے ان حادثات کو مغربی ملکوں نے دبا دیا۔ اگرپاکستان کے ایٹمی ری ایکٹروں میں اس طر ح کے حادثات ہوتے ہوتے جو بھارتی ری ایکٹروںمیں ہوئے ہیں تو پاکستان کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جاتا اور اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگادی جاتیں۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ بھارت کا نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اگرچہ اس کی اب بھی بھرپور کوشش ہے کہ امریکہ کی مدد سے وہ اس گروپ میں شامل ہو جائے لیکن فی الحال چین نے اس کا یہ خواب چکنا چور کر دیا ہے۔ کسی زمانے میں جب پاکستان کو امریکہ سے یو ایس ایڈ کے تحت گندم اوردوسری اشیاءبطور امداد ملتی تھیں تو تھینک یو امریکہ کے نعرے لگتے تھے جب پچاس کی دہائی میں امریکی گندم کراچی پورٹ پر اتری تو وہاں سے بیل گاڑیوں میں یہ گندم کراچی شہر میں لائی گئی ان بیل گاڑیوں میں جتے بیلوں کے گلوں میں ”تھینک یو امریکہ“ کے کتبے لگائے گئے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیاہے اب پاکستان میں ”تھینک یو چائنا“ کے نعرے لگنے لگے ہیں۔