24 جون 2012ء کی ڈھلتی رات ‘ مرشد سے آخری ملاقات آج تک میرے دل و دماغ میں آدھ کھلے گلاب کے پھول کی طرح حاشیہ آراءہے۔ کتنے ہی ماہ سے انہوں نے بزم آرائی ترک کر دی تھی۔ مگر اچانک حکم ملا کہ اہل خانہ کے ساتھ حاضر ہو جاﺅں۔ اس رات وہ دیر تک بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو کرتے رہے۔ انکی من پسند اشیاءخورد و نوش بار بار اپنے ملازم خاص اشتیاق سے منگواتے جاتے اور ہم سب کو کھلاتے جاتے۔ خیال تھا کہ نو بجے وہ نشست برخاست کر دینگے۔ مگر وہ ڈائنگ ٹیبل سے اٹھ کر ڈرائنگ روم میں آگئے اور دیر تک اپنی زندگی کے اسرار و رموز سے ہمیں آگاہ کرتے رہے۔ اگرچہ انہیں اپنے وقت رخصت سے کسی حد تک آگاہی تو تھی مگر ابھی کچھ ذاتی اور خاندانی امور حل طلب تھے۔ جس کیلئے وہ رب کریم سے کچھ مہلت کے طلبگار دکھائی دئیے۔ لیکن مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس عاشق رسول کے دل وحشی میں درد تنہائی اس قدر بڑھ چکا ہے۔ اور وہ لہو بن کر انکے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھول کر انکے ویرانہ تن سے بہنے کا آرزو مند ہے۔ رات گئے آخری دفعہ تو ہم سب باری باری انکے گلے لگے۔ بار بار گلے لگاتے رہے۔ دعا کیلئے مرد درویش کے ہاتھ اُٹھے۔ کار کو ریورس گیئر لگا کر 7 فیصل ریونیو سے باہر آ گیا۔ مرشد کو رات کے پچھلے پہر تیز بخار نے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا۔ ٹھیک 48 گھنٹوں کے بعد 24 جون 2014 کی صبح فون کی گھنٹی بھجی اشتیاق نے روح فرسا خبر دی کہ صاحب جلال و جمال، مرشد نسیم انور بیگ کی روح اپنے محبوب حقیقی سے جا متصل ہوئی ہے آج جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں مرشد کی دلداری کے نظارے آنکھوں کے سامنے اُجاگر ہوتے ہیں تو سوچتا ہوں....
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
مرشد نسیم انور بیگ کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ ان کے ساتھیوں نے بھی رخصت فاصلہ شوق کی تیاری کا عزم کر لیا۔ جن کے دم سے بہار زندگی میں کسی حد تک رنگینیاں اور امیدیں قائم تھیں۔ امیدوں اور آرزﺅں کا مرکز مجید نظامی انکے یار غار تھے۔ نظامی صاحب ان کو مستجاب الدعا صوفی خیال کرتے تھے چونکہ ان میں حس مزاح بھی بہت تھی جب بھی میرا بیگ صاحب کے متعلق کوئی آرٹیکل پڑھتے تو خاص طور پر مجھے اسکے متعلق بتاتے اور اکثر مجھ سے پوچھتے آپکے مست ملنگ مرشد کا کیا حال ہے۔ دونوں میں باہمی عزت اور احترام کا بے حد گہرا تعلق تھا اور نظریاتی طور پر دونوں شخصیات کے دل و دماغ میں بے حد ہم آہنگی تھی۔ سب سے بڑی قدر مشترک دونوں کا عاشق رسول ہونا تھا۔ مرشد نسیم انور بیگ انہیں مدینے کا آدمی کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ جب بھی اسلام آباد آئے تو مرشد کے ہاں ضرور تشریف لاتے۔ کئی مرتبہ مرشد مجھے انہیں ان کی اسلام آباد کی رہائش گاہ سے لانے کاحکم دیتے وہ آج ہم میں نہیں ہیں مرشد کے چہیتے جرنیل جنرل حمید گل اور چہیتے جج جسٹس اعجاز احمد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز تو ہر کام مرشد سے پوچھ کر کرتے تھے۔ مرشد نسیم انور بیگ کے مشورے پر ہی انہوں نے پرویز مشرف کے پی۔سی۔ او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ مجھ سے اکثر پوچھتے کہ نسیم صاحب تمہیں کس کے حوالے کر کے گئیں ہیں؟ میں کیا جواب دیتا۔ برادرم سعید آسی کے بیٹے کی لاہور میں شادی کی تقریب تھی۔ آخری دفعہ جسٹس اعجاز سے وہاں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے ہاں ٹھہرنے کیلئے بڑا اصرار کیا مگر میں نے معذرت کر لی۔ پھر کچھ دنوں بعد انہوں نے نسیم انور بیگ کی شخصیت پر اپنی مرتب کتاب ”باد نسیم“ کی تقریب پذیرائی پر لاہور آنے کیلئے کہا مگر میں اپنی تساہل پسندی کی وجہ سے نہ گیا ایک دن اچانک ”باد نسیم“ کے متعلق برادرم فضل حسین اعوان نے معلوم کیا۔ میں نے انہیں جسٹس اعجاز کا نمبر دیا۔ مگر اعوان صاحب نے جب فون کیا تو پتہ چلا کہ جسٹس صاحب بھی مرشد کے ہاں خلد بریں ہو چکے ہیں کس کس کو یاد کروں ابھی ابھی برادرم طلعت عباس ایڈووکیٹ سے بات ہوئی تو وہ بھی انکل کو یاد کرتے ہوئے بیحد دکھی دکھائی دے رہے تھے۔ وہ آج تک یہ یاد کرتے ہیں کہ مرشد کے ہاں اور ہر انسان کو عزت اور تکریم ملتی تھی۔ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ اس کا مقام اور مرتبہ کیا ہے؟
مرشدانسانوں سے محبت کرتے تھے اور درود شریف کے ورد کے ساتھ ہر ایک کےلئے دعائے خیر کے ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ مرشد کے عزیز آغا افضل بھی دنیا سے چلے گئے۔ قدرت اللہ شہاب سے مرشد کو خاص عقیدت تھی اور انکے ساتھ خاندانی دوستی بھی تھی۔ قدرت اللہ شہاب اور ان کی اہلیہ عفت شہاب اکثر پیرس میں نسیم انور بیگ کے ہاں ٹھہرتے۔ نسیم انور بیگ جب پیرس میں یونیسکو کی ملازمت کرتے تھے تو پاکستان کی بڑی بڑی نامور ہستیاں انکے ہاں تشریف لاتیں تھیں۔ فیض احمد فیض، ڈاکٹر حمید الحق جیسی نامور شخصیات بھی نسیم انور بیگ کے ہاں تھہرتی رہیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح عمری ”شہاب نامہ“ میں مرشد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ڈائریکٹر جنرل یونیسکو .... رینے ماہیو کی فرعونیت کا طلسم توڑنے کیلئے یونیسکو میں احتجاج اور مزاحمت کی جو آواز تھی وہ ایک پاکستانی کے مقدر میں لکھی تھی ان کا نام نسیم انور بیگ ہے۔ نسیم انور بیگ گورنمنٹ کالج لاہور کے ممتاز طالب علم تھے وہ اپنے زمانے کے نہایت نامور مقرر تھے اور طلباءکے آل انڈیا مباحثوں میں حصہ لے کر بہت سی ٹرافیاں جیت چکے تھے اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے لاہور لاءکالج پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی امتحان پاس کیا طالب علمی کے زمانے میں وہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن تھے اور تحریک پاکستان میں طلباءکے کردار کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کیلئے وہ کئی دفعہ قائد اعظم کی خدمت حاضر ہو چکے تھے۔
1937ءمیں خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لے کر کچھ عرصہ تک جیل میں بھی رہے۔ 1954ءمیں وہ انٹرنیشنل سروس میں داخل ہو کر یونیسکو کے ہیڈ کوارٹر میں آ گئے۔ یہاں پر وہ کئی برس متواتر یونیسکو سٹاف کے صدر منتخب ہوتے رہے، ملازمین کے حقوق کی حفاظت کیلئے انہوں نے جس دور اندیشی اور جرا¿ت مندی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی دھوم یو این او کے تمام بین الاقوامی اداروں میں پھیل گئی اور یونائیٹڈ نیشنز کے تمام اداروں کی یونینوں کی فیڈریشن نے بھی ان کو کافی عرصہ تک اپنا مشترکہ صدر منتخب کئے رکھا۔ اس حیثیت میں نسیم انور بیگ کا یونیسکو کے آمرانہ ڈائریکٹر جنرل رینے ماہیو کے ساتھ کئی بار شدید ٹکراﺅ ہوا۔ اس قسم کے ہر تصادم میں ڈائریکٹر جنرل نے ہمیشہ منہ کی کھائی لیکن ذاتی سطح پر اس نے نسیم بیگ کی ملازمت میں ہر طرح کے رخنے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ نسیم بیگ صاحب کی ہمت تھی کہ ڈائریکٹر جنرل کی منتقمانہ کارروائیوں کو خاطر میں لائے بغیر وہ اپنے عدل و انصاف کے موقف پر کامیابی سے ثابت قدم رہے اور یونیسکو میں تئیس سالہ بے لوث خدمات کی روایات چھوڑ کر وہاں سے ریٹائر ہوئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد نسیم انور بیگ اسلام آباد میں 7 فیصل ایونیو میں شفٹ ہو گئے۔ یہ گھر قدرت اللہ شہاب اور جمیل نشر مرحوم نے زبردستی اپنی نگرانی میں بنوایا۔ وگرنہ نسیم صاحب تو درویش طبع شخص تھے۔ وہ تو پہلے ہی سیٹلائٹ ٹاﺅن میں اپنا آبائی گھر اپنے بھانجوں کو دے چکے تھے اور نسیم بیگ کی رحلت کے دوسرے دن ہی انکے بھانجوں نے نسیم صاحب کی رہائش گاہ کا ایک دم کنٹرول لے کر چند دنوں میں ہی اس کو کروڑوں میں بیچ دیا اور انکے چاہنے والوں کیلئے ان کی یاد کے تمام محل مسمار کر دیئے۔ مگر انکے عقیدت مند آج بھی اس گھر کے دروازے پر عقیدت کے پھول رکھ آتے ہیں حالانکہ یہ گھر دو تین ہاتھوں میں بک کر مسمار ہو چکا ہے۔ دوسرا انکے بھانجوں نے ان کی تدفین فتح جنگ کے ایک گاﺅں میں کی جہاں پر مرشد نسیم انور بیگ کے ایک روحانی بزرگ کا مزار ہے اس وجہ سے بھی ان کی قبر مرجع خلائق نہ ہو سکی قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں رینے ماہیو کا ذکر کیا ہے اس نے ایک دفعہ نسیم صاحب کا افریقہ تبادلہ کر دیا تھا بیگ صاحب کی ایک ایرانی ماتحت نے ایران کے ایک بہت بڑے بزرگ سے بات کی تو انہوں نے نسیم انور صاحب کو کہا کہ ڈائریکٹر جنرل اپنا حکم واپس بھی نہیں لے گا اور آپ بھی افریقہ نہیں جائینگے۔ نسیم صاحب کو یہ سن کر بڑی حیرانگی ہوئی مگر وہ ان ایرانی صوفی بزرگ کے کہنے پر افریقہ نہ گئے اور نہ ہی اپنا چارج چھوڑا۔ کچھ عرصے بعد انہیں ڈائریکٹر جنرل کا ایک اور حکم نامہ وصول ہوا کہ تاحکم ثانی تم یہیں کام کرو گے
انکل کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔ ضیاءالحق، قاضی حسین احمد جیسی شخصیات بھی انکی مداح تھیں۔ وہ پاکستان میں قرآن اور سنت کے نظام کے حامی تھے اور سامراجی قوتوں کے خلاف ہمیشہ حق و صداقت کی آواز بلند کرتے رہے۔ ان کے ساتھ بے شمار یادیں ہیں کس کس کا ذکر کروں بقول فیض....
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے