قوم اورسلامتی

Jun 25, 2017

مطیع اللہ جان....ازخودی

قومی سلامتی کا معیار بھی گر گیا ہے۔ پاناما تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی سے حسین نواز کی تصویر لیک ہونا تو معمول کا جرم تھا مگر اسے لیک کرنے والے کا نام اور ادارہ ظاہر کرنا قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ملک میں ایٹمی ٹیکنالوجی لیک کرنے کے الزام میں ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف تو کاروائی سر عام ہو سکتی ہے اور قومی سلامتی سلامت رہتی ہے مگر وہ تصویر ہمارے ایٹم بم کی تو تھی نہیں۔لیک شدہ تصویر حسین نواز کی تھی اور اسکا ذمے دار ملزم ابھی تک نا معلوم ہے۔ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے نا معلوم ملزم کے خلاف کاروائی بھی کر ڈالی اور سپریم کورٹ کو مطلع بھی کر دیا تھا۔ مگر یہ رپورٹ پاناما سکینڈل کے "ثبوتوں "تلے ایسی دب گئی کہ نہ تو سپریم کورٹ اسے دیکھ سکی اور نہ ہی اسکا بروقت تذکرہ کمرہ عدالت میں کر سکی۔ ریکارڈ کے مطابق اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کے دائر ہونے کے بعد حسین نواز کی شکایت کا جائزہ لیتے ہوئے بھی کمرہ عدالت میں یہ راز منکشف نہ ہوا کہ اس معاملے کی رپورٹ پہلے ہی سپریم کورٹ کو مل چکی ہے۔ مگر چونکہ اس رپورٹ میں شروع دن سے ہی ملزم کا نام درج نہیں تھا اور ملزم کا تعلق "قومی سلامتی" سے تھا۔اس لیے معزز عدالت نے نہ تو جے آئی ٹی سے اس کا نام مانگا اور نہ ہی اس کا ذکر اس سماعت کے دوران کیا جو تصویر لیک ہونے کے خلاف حسین نواز کی درخواست پر پہلے روز کی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس ملک میں خفیہ اداروں کی شمولیت سے تشکیل کردہ جے آئی ٹی کا ریکارڈ چوری ہوکر لیک ہونا تو اتنی بڑی بات نہیں مگر اس ریکارڈ کو چوری کر کے لیک کرنے والے کا نام ظاہر کرنے سے ہماری قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائیگی۔ کم از کم جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاکا تو یہی خیال ہے۔
سپریم کورٹ کے پوچھنے پر واجد ضیا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تصویرلیک کرنے والے ملزم کا نام ظاہر کرنے سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ پیغام واضح تھا کہ کہ قومی سلامتی کے ٹھیکیدار سپریم کورٹ کے معزز ججوں، اٹارنی جنرل اور حتٰی کہ حکومت کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ جن سے ایسے ملزم کا نام شیئر کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ یہ ایک ملزم ہے جسکا نام اعلٰی ترین عدالت کے معزز ترین ججوں سے بھی چھپایا جا رہا ہے۔ نام کو تو چھوڑیں عدالت کو تو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ ملزم کے ادارے کا نام ہی بتا دیا جائے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ عدالت نے بھی سوال نہیں اٹھایا کہ اگر عدالت کے نامزد چند سرکاری ادارے کے ملازمین کو بطور جے آئی ٹی اراکین تصویر لیک کرنے والے کا نام ملزم کا معلوم ہے تو کیا معزز ججوں کو بتانے سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائیگی؟
لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا یا توایسے ہم قومی رازوں کے حوالے سے اس اعتماد اور ملکی وفاداری کے حامل ہیں جو معزز عدالت ، اٹارنی جنرل اور حکومت پاکستان بھی نہیں اور یا پھر حقیقت میں واجد ضیا اور انکے سویلین ساتھیوں کو بھی تصویر لیک کرنے والے ملزم کا نام اور ادارہ نہیں بتایا گیا۔ گزشتہ تاریخ پر اعلٰی ترین عدالت کے معزز ترین ججوں نے حکم دیا کہ حکومت بتائے کہ تصویر لیک کرنے والے ملزم کا نام اور ادارہ منظر عام پر لانا قومی سلامتی کے منافی ہے یا نہیں۔اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کا یہ انداز پرانا ہو چکا ہے۔ عدالت حکومت سے کس بات کی رائے مانگ رہی ہے؟ وہ کونسا نام اور کونسا ادارہ ہے؟ عدالت کو خود پتہ نہیں اور نہ ہی پتہ کیا گیا ہے۔
امکان ہے کہ حکومت اور خاص کر وزیر اعظم کو تو بالکل ہی نہیں بتا یا گیا ہوگا کہ انکے بیٹے حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی اور اس کے پیچھے کونساادارہ ہے۔ عام حالات میں ایسی رپورٹیں توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں جن میں ملزم اور اسکے ادارے کا نام اعلٰی ترین عدالت سے بھی چھپایا جائے۔ایک کمرے کی کارنر میٹنگ میں " بیچارے" نہال ہاشمی نے تو محض دھمکی لگائی تھی۔اس کی جماعت کو "سیسلین مافیا " کا خطاب مل گیا اور فرد جرم عائد کرنے کا اعلان ہو چکا۔ اگر عدالت کا وقار ترجیح ہوتی تو ججوں اور انکے اہل خانہ پرعملی طور پر "زمین تنگ"کرنے والا فوجی آمر آج کسی جیل میں سڑ رہا ہوتا۔اب صورت حال یہ ہے کہ عدالت ایک ایسے ملزم اور ادارے سے متعلق حکومت کی رائے مانگ رہی ہے جسکا خود عدالت کو معلوم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تصویر لیک کرنے والا کوئی ایف آئی اے ، نیب، سٹیٹ بنک یا ایف بی آرکا معمولی سویلین ملازم ہو تو پھر کیا سپریم کورٹ از خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ ان معمولی سویلین ملازمین اور انکے سویلین ادارے کا نام راز میں رکھنے سے قومی سلامتی کا کوئی تعلق نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے وقت خاص کر فوج کے خفیہ اداروں کی طرف سے سکیورٹی کلیئرنس کے باوجود اچھے کردار کی جاری اسناد کے حامل معزز ججز صاحبان کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ انہیں ایک سرکاری ملازم اور ملزم کا نام اور ادارہ تک نہیں بتایا جا رہا۔ اور کیا وجہ ہے کہ عدالت کی طرف سے یہ نام پوچھے بھی نہیں جا رہے؟ لگتا ہے قومی سلامتی اور ذاتی سلامتی کے درمیان لکیر مٹ رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی اور اپنے اپنے ملزمان کی سلامتی کو قومی سلامتی بتا رہا ہے۔ اور شاید ذاتی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ اس مذاق کو سنجیدہ لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے۔ مگر اس خاموشی میں بھی سازش کی بوآتی ہے۔ سیاستدانوں اور وزراءاعظموں کو کرپٹ اور ڈاکو تو پہلے ہی ثابت کیا جاچکا ہے۔ بلکہ یہاں تو منتخب وزراء اعظموں کو " سکیورٹی رسک" یعنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ بھی قرار دیا جاتا رہا۔
ہمارے خفیہ ادارے اہم قومی معاملات اور حتٰی کہ دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں سے متعلق بھی مکمل معلومات سیاسی حکومتوں اور سویلین اداروں کو نہیں دیتے رہے۔ جے آئی ٹی سے تصویر لیک کرنے والے ملزم کو خفیہ رکھنا اسی ذہنیت کا حصہ ہے جسکے مطابق قومی سلامتی کا تعین آئین اور قانون نہیں بندوق کی نالی سے ہوتا ہے۔ عدالت کا یہ حکم کہ تصویر لیک کرنے والے ملزم کا نام ظاہر نہ کرنے پر حکومت اپنی رائے دے دراصل بندوق کی نالی حکومت کی جانب موڑنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ تصویر لیک کرنے والے نامعلوم ملزم کے خلاف تحقیقات اور سزا کی درخواست کسی اور نے نہیں وزیر اعظم کے فرزند حسین نواز کی ہے۔ گیند کو حکومت کے صحن میں اچھال دیا گیا ہے۔ حکومت سے مراد ظاہرہ بات ہے کہ وزیر اعظم ہیں۔ عدالت نے اپنا ترازو وزیر اعظم کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ ایک پلڑے میں قومی سلامتی اور دوسرے میں حسین نواز ہیں۔ اب وزیر اعظم کریں تو کیا کریں۔ اگر وہ ملزم کا نام ظاہر کرنے کی رائے دیتے ہیں تو ان پر ذاتی اور خاندانی مفاد کی خاطر " قومی سلامتی " کو داو پر لگانے کا الزام دھر دیا جائیگا اور اس بات کی بھی گرانٹی نہیں کہ عدالت انکی رائے تسلیم کرتے ہوئے ملزم کا نام ظاہر کرنے کی اجازت دے دیگی اور اگر عدالت نے وزیر اعظم اور انکی حکومت کی رائے مسترد کرتے ہوئے " قومی سلامتی" کی خاطر نام خفیہ رکھنے کی اجازت دے دی تو پھر وزیر اعظم کی حب الوطنی پر الزامات کی ایک یلغار ہو گی۔
تصویر کے لیک ہونے سے دیے گئے زخموں پر عدالتی حکم کا جو نمک چھڑکا جائے گا اسکا درد لا علاج بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر تو تصویر لیک ہونے کا معاملہ اتنا بڑا نہیں کیوں کہ اصل مسئلہ تو پاناما سکینڈل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کو خود جے آئی ٹی نے قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اگر تصویر لیک ہونا بڑا مسئلہ نہیں تو اسکے ملزم کی شناخت قومی سلامتی کا مسئلہ کیسے بن گیا ہے۔ اور اگر یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے تو پھر ان خدشات اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے ابھی بھی منتخب سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آئے اور عدلیہ بھی صرف اور صرف سیاستدانوں اور سویلین حکومتوں پر رعب جما کر اپنی آزادی اور وقار کا جھوٹا بھرم قائم کیے ہوئے ہے۔ اس وقت گیند حکومت کی صحن میں ہے۔
وزیر اعظم کو چاہیے کہ تھوڑی سی ہمت کر کے سیاسی حکومت اور آئین کی بالادستی کا یہ موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ صاف طور پر عدالت کو بتا دیں کہ تصویر بے شک انکے فرزند کی لیک ہوئی مگر یہ مسئلہ فرزند یا اسکی تصویر کا نہیں اصول اور قانون کا ہے اس لیے ملزم کا نام اور ادارے کا نام منظر عام پر لا کر اسکے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ تصویر کا لیک ہونا خود سپریم کورٹ کیلئے بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی ہے ، حکومت کی نہیں۔ویسے بھی قومی سلامتی کے نام پر اس ملک میں آئین ، قانون، اداروں اور جمہوریت کو جس طرح پامال اور بدنام کیا گیا ہے یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ ہماری قوم کی بدقسمتی دیکھیں کہ " قومی سلامتی" کے نام پر قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مرتکب فوجی حکمرانوں کے احتساب کو "قومی سلامتی" کے لیے خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ملک ٹوٹ گیا مگر " قومی سلامتی" نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ جاری نہ ہونے دی، بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ، انیس سو نوے کے انتخابات چوری ہوئے ، مرتضٰی بھٹو کا قتل، کارگل کی جنگ ، ایبٹ آباد میں امریکی حملہ ، سب کچھ قومی سلامتی کا نام پر قوم سے چھپایا گیا۔ مسئلہ قومی سلامتی کا نہیں بلکہ شاید اس بھونچال کا ہے جو تصویر لیک کرنے والے ملزم اور اسکے ادارے کا نام ظاہر ہونے سے آئے گا۔ عوام کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ پاناما سے زیادہ کرپشن تو اسلام آبادیا راولپنڈی میں ہے۔مسئلہ اس ملک کے آئین اور جمہوریت کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے والوں کی اپنی سلامتی کا ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی کمزوری دکھائی تو پھر عدالت میں کچھ ثابت ہو نہ ہو عوام کی عدالت میں وزیر اعظم ضرور مجرم ٹھہریں گے۔

مزیدخبریں