پشتونوں کی حب الوطنی اورمحمود اچکزئی کابیان

محمود خان اچکزئی کی سیاسی تاریخ ہرزہ سرائیوں پر مبنی ہے اپنے خودساختہ مفادات کو پانے کو لیے موصوف نت نئے بیانات داغتے رہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے موصوف کے خلاف ریاست کوئی واضح اقدام کیوںنہیں کرتی ؟ کیوں موصوف کے بیانات پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے؟اس کی بنیادی وجہ موصوف کی سیاسی چال ہے موصوف پشتون کارڈ کا سہارا لے کر دھڑلے سے ریاست کے مفادات کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں جو جی میں آئے کہے جاتے ہیں ۔آزادی اظہارے رائے کا انہیں حق حاصل ہے کوئی انہیں کیسے روک سکتا ہے ۔یہی کام اگر کوئی عام شہری کرے تو اسے ملک دشمن سمجھ کر اٹھالیا جاتا ہے پھر پتہ نہیں زمین کھا جاتی ہے یاآسمان کچھ پتہ نہیں چلتا کہ بندہ کہاں گیا؟ مگر محمو د اچکزئی صاحب کچھ بھی کہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے پاس پشتون کارڈ ہے اورشائد مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انہیں احسن طریقے سے ڈیل کیا جائے البتہ عوام کو چاہیے کے ان کے اس بیان پر کڑا احتساب کرے بالخصوص پشتون بھائیوں کو حقائق کا ادراک کرنا چاہیے منظور پشتین اورمحمود اچکزئی کی چالوں کو سمجھنا چاہیے۔
ریاستی اداروں کو پشتونوں کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے نقیب اللہ محسود کے قاتلوں سمیت دیگر حقوق سلب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور تمام لاپتہ افراد کا سراغ لگانا چاہیے جو عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اگر یہ افراد ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے مقدمات چلائے جائیں بلاوجہ مائوں سے ان کے جگر گوشے دور کرنا انصاف کا قتل ہے ایسے غیرقانونی اقدامات کو سرکش افراد بطور چال استعمال کرتے ہیں جس سے ریاست کو نقصان پہنچتاہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ درست فیصلے کیے جائیں غلطیاں تسلیم اوراصلاح کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گزشتہ چار دہائیوں سے پشتون جنگ کی چکی میں پس رہے ہیں جہاد روس سے لے کر دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ تک کا سفر پختون قوم نے برداشت کیا ہے اوردونوں محاذوں پر استقامت کا پہاڑ بن کر دشمن کو شکست دینے میں افواج پاکستان کا ساتھ دیا ہے لہٰذا جو پختونوں کا دشمن ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے اور جو لوگ پاکستان کے دشمنوں کو تحفظ دیتے ہیں، وہ ہم سب کے دشمن ہیں۔
محمود اچکزئی صاحب خیبرپختون خواہ اورفاٹا سے متعلق متضاد بیانات دے چکے ہیں ،’’فاٹا کاخیبرپختون خوا ہ میں انضمام ‘‘موصوف کو پسند نہیں نت نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں معلوم نہیں کب ہندوستان کی زبان بولنا بندکریں گے اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو ہدایت عطاکرے ۔موصوف نے کالاباغ ڈیم سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کالاباغ بنانے کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے دیاتھا اگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے بھی دیاہوتا تب بھی ہم نے اسے تسلیم نہیں کرنا تھا اب دیکھئے موصوف کی حب الوطنی کہ جس چیز سے پچیس کروڑ عوام کو فائدہ ہوسکتا ہے جس سے پاکستانی معیشت مضبوط ہوسکتی ہے ،جس سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم ہوسکتا ہے ،جس سے سرزمین بنجر ہونے سے محفوظ ہوسکتی ہے اس منصوبے کے خلاف کمربستہ کھڑے ہیں اوریہی ارض پاک کا دشمن چاہتا ہے کسے معلوم نہیں ہے کہ ان دنوں سی پیک سے زیادہ اہم مسئلہ پاکستان کا پانی ہے ۔
بھارت سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم پر ڈیم بنائے جارہا ہے اورپاکستانی پانی پر قبضہ جمانے کی روش پر پوری قوت سے گامز ن ہے اوراچکزئی صاحب پاکستان کے واحد پانی کے کامیاب منصوبے کے خلاف زبان درازی کررہے ہیں ایسے ہی موصوف فاٹا کے خیبرپختون خواہ میں انضمام کے مخالف تھے ریاستی اداروں کو چاہیے کو مٹھی بھر عناصر کی پروا کیے بغیر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا عمل شروع کیا جائے اور اسے جلدازجلد مکمل کیا جائے تاکہ وطن عزیز اورآنے والی نسلوں کا پاکستان روشن اورسرسبز ہو ۔
تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے منشور میں کالاباغ ڈیم کو شامل کرنا چاہیے ،عوام سوشل میڈیا پر کالاباغ ڈیم مہم چلارہے ہیں جو یقینا خوش آئند عمل ہے مگر عامتہ الناس کو اس پارٹی کو سپورٹ کرنا چاہیے جو کالاباغ ڈیم کی حمائت کرتی ہو چونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر روشن پاکستان کی تعمیر کے مترادف ہے عوام کا بھرپور مطالبہ ہے کہ ہمیں موٹروے ،جنگلہ بس ،گرین بس،گرین ٹرین ،مٹرونہیں چاہیے ہمیں کالاباغ ڈیم چاہیے ۔عوام پانی کو عزت دو کا مطالبہ کررہے ہیں ،عوام صاف پانی کے متلاشی ہیں ،وطن عزیز کا اسی فیصد پانی آلودہ ہوچکا مگر اف ہے جمہوریت پسند حکمرانوں پر اپنا سارا وقت سیمنٹ بجری پر صرف کرتے رہے اورکوئی صاف پانی کا قومی منصوبہ متعارف نہ کرواسکے ۔ محمود اچکزئی کی سیاسی تاریخ مخالفتوںپر مبنی ہے اورمولانا نے کبھی اقتدار کی ڈور اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دی سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر اہلیان پاکستان کو پاکستان عزیز ہے پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان ہماری جان ہے ۔

ای پیپر دی نیشن