تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
مختلف افراد زندگی کے مختلف شعبوں میں اعزازی طور پر ریکارڈ بناتے ہیں اور تاریخ میں اپنا نام درج کراتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنی مدت اقتدار پوری کی لیکن اقتدار کی مدت پوری کرنے کے باوجود سابق پیپلزپارٹی کے ’’اصولوں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اپنی ہی حکومت کے دور میں نااہل ہوئے جیساکہ پیپلزپارٹی کے عہد حکومت میں سید یوسف رضا گیلانی نااہل ہوئے۔گویا دونوںپارٹیوں نے مدت اقتدار پوری کی لیکن دونوں کے قائد ایوان عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نااہل قرار دیئے گئے۔ جمہوری ممالک کی سیاسی تاریخ میں اس ریکارڈ کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے قائم کیا اور اس ریکارڈ کو کوئی نہ توڑ سکے گا۔ نااہلی کے اس رشتہ سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی جڑواں بھائی ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ریکارڈ کی بات چلی ہے چونکہ پاکستان میں ان دنوں قومی انتخابات کی منڈی لگ چکی ہے اور اس منڈی میں اس قدر تیزی نظر آتی ہے دیکھیں کون سی پارٹی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور میدان میں کون کون ثابت قدم رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تین ’’بکرے‘‘ تو اپنے اپنے ’’رن وے‘‘ پر موجود رہیں گے جن کے گلوں میں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا پٹا ہو گا۔ لہٰذا ریکارڈ کے حوالہ سے بات کرتے ہیں کہ حسن اتفاق سے ایک ہی دن تین ریکارڈ سامنے آئے۔ ہم ورلڈکپ فٹ بال کی بات نہیں کرتے ہیں، کرکٹ کی بات کرتے ہیں کہ برطانیہ نے ون ڈے کرکٹ میں 481رنز آسٹریلیا کے خلاف بنا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا جبکہ قومی اسمبلی کا حلقہ ہو یا صوبائی اسمبلی کا حلقہ لوگوں میں ’’چوہدری تخت‘‘ حاصل کرنے کا مرض کینسر کی طرح پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور کوئی حلقہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں ایک درجن سے کم امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرائے ہوں لیکن اس عاشقان کرسی کے ہنگامہ پرور دور میں پیپلزپارٹی کے رہنما میر شبیر علی بجرانی کو اخباری رپورٹس کے مطابق یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میر شبیر علی بجرانی کے مقابلہ میں جن امیدواروں نے کشمور کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 6 میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے ریٹرننگ افسر نے ان کے کاغذات مسترد کر دیئے جس کے نتیجہ میں یہ انہونی سامنے آئی کہ اگر میر شبیر علی بجرانی کے مخالف امیدواروں نے اپیل دائر نہ کی تو شبیر بحرانی 2018ء کے انتخابات میں بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کریں گے جبکہ اسی روز اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، عائشہ گلالئی، سردار مہتاب عباسی کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر نے مسترد کر دیئے۔ ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی حلف نامہ کی شق این کے تحت مسترد کئے گئے ہیں۔ اگر جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں وہ اپیل نہیں کرتے تو اسلام آباد کا حلقہ 53 پاکستان کا واحد حلقہ ہو گا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ابھی الیکشن ہوئے نہیں کہ ضمنی الیکشن کی بنیاد ڈال دی گئی، ہے ناں ریکارڈ کی بات، پرلطف اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حلف نامہ جس کی بنیاد پر ریٹرننگ افسر نے کاغذات نامزدگی مسترد کئے ہیں الیکشن ایکٹ کے تحت تمام امیدواروں پر یہ پابندی عائد ہے کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ جو حلف نامہ داخل کرنا ہے یا جو حلف دینا ہے اس میں حلف نامہ کی مختلف شق کے حوالہ سے یہ بھی بتانا ہے کہ اگر آپ پہلے قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہے ہیں تو امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے حلقہ کے عوام کے مفادمیں کیا کیا اقدامات کئے اور آئندہ کیا اقدامات کریں گے۔ عمران خان، سردار مہتاب عباسی، شاہد خاقان عباسی اور عائشہ گلالئی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہ کر سکے لہٰذا ان پر کاغذات مسترد کرنے کی تلوار سے وار ہی نہیں کیا بلکہ نیا ریکارڈ بھی سامنے آیا۔ حیرت ہے کہ اس حلف نامہ کی شق این کی موجودگی میں سابق ارکان اسمبلی کے ریٹرننگ افسروں نے کاغذات نامزدگی کس بنیاد پر منظور کر لئے۔ یہ شق پل صراط پار کرنے والی لگتی ہے ایک صاحب تقریر کر رہے تھے اور جنت میں داخل ہونے کی شرط بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پل صراط پار کر کے جنت میں جانے کے لئے جس دھار سے گزرنا ہو گا وہ تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہو گی۔ اس پر ایک سادہ اور معصوم سے شخص نے مولوی صاحب سے کہا کہ سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ اللہ نے ’’ای سی ایل‘‘ میں نام ڈالا ہوا ہے پل صراط تو محض بہانہ ہے۔ انتخابات میں جو سابق ارکان اسمبلی میدان میں موجود ہیں وہ بھی پل صراط پر چلتے نظر آتے ہیں۔ فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے دس اور صوبائی اسمبلی کے اکیس حلقوں میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں اور فیصل آبادکے 31حلقوں کے امیدواروں کے کاغذات جانچ پڑتال کے بعد اب انتخابی نشان کا مرحلہ بھی قریب تر ہے اور 28 جون کو حتمی فہرست منظرعام پر آ جائے گی۔ گویا فلم چلنی شروع ہو جائے گی اور سینما ہال کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ فیصل آباد میں کون کس کا مقابلہ کرے گا جس پر بات کرنے سے قبل سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خاں جو قومی اور صوبائی حلقہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں جب کاغذات نامزدگی کی سکروٹنی ہو رہی تھی تو سابق صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں ریٹرننگ افسر عدنان طارق کے سامنے پیش نہیں ہوئے بلکہ ان کی نمائندگی ان کے وکیل ملک جاوید اعوان نے کی۔ اس پر ریٹرننگ افسر عدنان طارق نے دریافت کیا کہ رانا ثناء اللہ خود کیوں پیش نہیں ہوئے تو بتایا گیا کہ سیکورٹی ایشوز ہیں لہٰذا ریٹرننگ آفیسر نے سٹی پولیس آفیسر کو حکم جاری کیا کہ وہ رانا ثناء اللہ خاں کو سیکورٹی فراہم کریں۔ یوں سیکورٹی فراہم ہونے پر رانا ثناء اللہ پیش ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ دوبارہ وزیرقانون بن گئے تو کیا کریںگے تو جواباً رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وہ لوئر جوڈیشری کے لئے کام کریں گے کیونکہ عوام کو ابھی تک انصاف کی تاخیر کا سامنا ہے۔ ریٹرننگ افسر عدنان طارق نے دریافت کیا کہ آپ پر کوئی کریمینل مقدمہ تو درج نہیں ہے جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کی رپورٹ پرانی ہے اور اس میں شامل افراد میں اس کا نام موجود نہیں۔ لہٰذا اس وقت نگران حکومت ہے اگر رانا ثناء اللہ خود ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے اورپھر انہیں پولیس کی سیکورٹی میں عدالت میں لایا گیا۔ اسلام آباد کے حلقہ 53 میں حلف نامہ کی شق این کے تحت عمران خان، شاہد خاقان عباسی، عائشہ گلالئی اور سردار مہتاب عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے اس کے ساتھ ہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رانا ثناء اللہ اپنی انتخابی مہم بھی حکومت کی فراہم کردہ سیکورٹی میں چلائیں گے۔ فیصل آباد کے قومی اسمبلی کے حلقہ 101 سے 110 پر 225 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور 209 امیدواروں کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے لئے 186اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 551 امیدوار انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں اورانہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے۔ فیصل آباد سے عابد شیرعلی، رانا ثناء اللہ، راجہ ریاض احمد، فرخ حبیب، فیض اللہ کموکا، سردار دلدار احمد چیمہ، میاں فاروق، غلام رسول ساہی، میا ںعبدالمنان، ڈاکٹرنثارجٹ، رانا محمد افضل، آزاد علی تبسم، محمد اجمل، مسعود نذیر، چوہدری عاصم نذیر، ظفر ذوالقرنین ساہی، فواد چیمہ، رانا زاہد توصیف، نواب شیر وسیر، عاشر رجب علی، رضا نصراللہ گھمن، میاں قاسم فاروق، اصغر علی قیصر، شعیب ادریس، طارق محمود باجوہ، جہانزیب امتیاز گل، اسد معظم، نجم الحسن اور صاحبزادہ حامد رضا سمیت تمام امیدواروں کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں،الیکشن مہم میں تیزی آ گئی ہے ، دن بدن صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی حلقہ میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے سوا کسی اور سے مقابلہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذادونوں جماعتوں کے حامی اپنے اپنے گھوڑوں پر شرطیں بھی لگا رہے ہیں اور چائے خانوں کی رونقوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ لہٰذاچائے کی پیالی پرکس کی فتح اور شکست کا فیصلہ ہوتا ہے۔