باسٹھ تریسٹھ کااطلاق اور بلیک کامیڈی

Jun 25, 2018

لندن کے مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں پردے پر گڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ سٹینڈاپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔ چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیوں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔ یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی سٹینڈ اپ کامیڈین ایموفلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا’’دوستو میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا۔ مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا کیتھولک باپ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔ میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔
میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا۔ اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا‘ لیکن میں سمجھ گیا تھا۔ اتنا کہہ کر ایموفلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے لیکن ایسی پن ڈراپس سائیلنس تھی کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔ ہر شخص ایموفلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا۔ وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گتھیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکرو فون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی۔ ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میر ی پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے۔ اتنا کہہ کر جیسے ہی ایموفلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو سٹینڈاپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔اتنا کہہ چکنے کے بعد ایموفلپس نے پھر سے مائیکرو فون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھناوہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے۔ اتنا کہہ کر ایموفلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گتھیاں سلجھا دی تھیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری اور معاشی دہشت گردی کے عدالتی کیس چل رہے ہیں وہ سب لوگ مکہ مدینہ میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے‘ نماز پڑھتے ہوئے‘ جالیوں کو چومتے ہوئے اور ہزار طرح کی مناجات کرتے ہوئے تصویر یں کھینچوا کر بھیج رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے نیک اور مذہبی ہیں۔ ہم تو ہر لمحہ اﷲ سے توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ انسان پر بعض اوقات مشکلات اکٹھی ہو جاتی ہیں اور وہ اس کا شکار ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ تمام تر معافیوں تلافیوں کے آئندہ انتخابات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر جو بیان حلفی ان کی اولاد یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے جمع کروائے ہیں وہ ایک بار پھر جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بنی گالہ سے جاتی عمرہ تک جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ بلاول ہاؤس سے منصورہ اور عبدالخیل تک تمام اعداد و شمار جو بیان حلفی میں دئے گئے ہیں واضح طور پر غلط ہیں۔ عام آدمی کو کاغذاتِ نامزدگیوں تک رسائی دی گئی ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ ہر ووٹر اپنے امیدوار کے اثاثہ جات کا تفصیلی معائنہ کر سکتے ہیں مگر لوگ کیسے مان لیں گے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بنک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے موجود ہیں لیکن گاڑی نہیں ہے۔ بنی گالہ کے ایکڑوں پر محیط محل کے مالک کے پاس بھی گاڑی نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ کے ذاتی گھر کی ملکیت پچیس لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔ جاتی عمرہ کی زمین چند سو روپے مرلہ بتائی جائے تو کون یقین کرے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایسے امیدواروں کے کاغذات منظور بھی کر لئے گئے ہیں اور وہ آنے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہل قرار پائے ہیں۔ کیا یہ سب 62,63 کے اہل ہو گئے ہیں؟ لگتا ہے یہ انتخابات بھی سابقہ انتخابات سے مختلف نہیں ہونگے۔ نئے پاکستان کا خواب شاید خواب ہی رہے گا۔ ان امیدواروں کا احتساب ووٹر اپنی پرچی سے تو کریں گے لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ 25 جولائی سے قبل سرداروں اور وڈیروں کا احتساب جس طرح سڑکوں پر ہو رہا ہے اور جب وہ ووٹ مانگنے جا رہے ہیں اس پر نوجوانوں کا دباؤ اور ردعمل خوفناک ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ احتساب خوش آئند ہے اور اس احتسابی عمل میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار ہے لیکن اس پر زیادہ خوش بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یاد رہے یہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے اہم انتخاب ہیں۔ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ امیدواروں کا احتساب پاکستانی ادارے کریں یا پھر عدالتیں کریں۔ نوجوان طبقے کو اگر احتساب کرنا ہے تو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سرداروں جاگیرداروں اور کراچی جیسے شہر میں تو پھر لوگ باہر نکل آئے ہیں اور اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ جب تمام امیدواروں کے بیان حلفی دیکھیں اور ان کا جائزہ لیں ان کے اثاثوں کی ملکیتوں کا حساب لگائیں تو میرے کانوں میں باربار ایموفلپس کا وہ جملہ گونج رہا ہے ۔ اگر تم کبھی کسی مالدار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے۔ بلیک کامیڈی اور کیا ہو گی اور کیسے ہو گی؟

مزیدخبریں