آج کل کرکٹ کے پرانے رسیا اور نئے دیوانے ہر شام کو نہا دھو کر ٹی وی اسٹیشن کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور کرکٹ کے ہونیوالے میچوں میں خود کو جذب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ جو کہ انگلینڈ میں ہو رہا ہے اس دفعہ بارش کی وجہ سے کچھ پھیکا رہا کہ کم و بیش چارمیچوں میں مقابلہ برابر ہوا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا۔ اور اس وقت تک چار ٹیمیں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر چکی ہیں ان میں سابق چیمپئن آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور بھارت شامل ہیں۔ اور امید واثق ہے کہ اس دفعہ ورلڈ کپ میزبان ملک کے حصے میں ہی آئے گا۔ میچوں کے دوران البتہ کافی ریکارڈ بنے اور بعض ٹیمیں جو آخری ٹیموں میں شمار ہوتی تھیں بعض میچوں میں انکے حصہ میں شاید شاندار کارکردگی آئی اور مقابل آنیوالی بڑی ٹیموں کو کافی ٹف ٹائم ملا۔ بھارت اور افغانستان کا میچ اس سلسلے کے ایک قابل دیگر کڑی تھا اسکے علاوہ بنگلہ دیش کی ٹیم کہ جو نسبتاً نئی ٹیموں میں شمار کی جاتی ہے کہ کھلاڑیوں نے اپنی قسمت اور کارکردگی سے کرکٹ کے شائقین کو حیران کیا۔اب کرکٹ کے بڑے کھلاڑی بھی فلمی کھلاڑیوں کی طرح ستارے ہی شمار ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ستارہ وسیم اکرم ہے جو اپنی نئی بیگم کے ساتھ اے سی کے اشتہار سے نکلتا تو واشنگ پوڈر کی بس چلاتا ہوا آ جاتا ہے اور پھر آخر میں بچے اسے کرکٹ کی کمنٹری کرتا ہوا بھی دیکھتے ہیں اور پریشان ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یہ بھائی ابھی تو بس چلا رہا تھا اور اب کمنٹری پر بھی اپنی نپی تلی رائے دے رہا ہے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ بھئی وہ ایک سٹار ہے اور روپیہ پیسہ کمانا اس کی بھی ضرورت ہے اسی طرح ہمارے پرانے کھلاڑی رمیض راجہ بھی ہیں مگر انہوں نے تاحال اشتہاری ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود کو کرکٹ کی سرگرمی تک محدود رکھا ہے۔دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو عوامی انداز میں نظرآنے کا چلن اتنا برا نہیں بلکہ اچھا تاثر چھوڑتاہے۔ اور اس دوران میں فلمی ستاروں کی مناپلی کو ختم کرتاہے جو کہ ہونی چاہیے اور شوبزنس میں سب سے بڑا تقاضا تو مشہوری اور لوگوں کے دلوں میں بسنا ہے اس حوالے سے کرکٹ بھی ایک باقاعدہ انڈسٹری ہے اور فلم انڈسٹری سے زیادہ لوگوں میں مقبول ہے کہ فلم کی جگہ کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے خطرات بھی کم دوچار ہوتے ہیں۔آنیوالے دنوں میں کرکٹ کا بخار اور بڑھے گا اور سیمی فائنل کے میچ کافی دلچسپ ہونگے کیونکہ ان میں زیادہ نمبر لینے والی ٹیم نے ہی بالآخر فائنل جیتنا ہے اور ورلڈ کپ بھی۔ گذشتہ دنوں ایک ذہین فلم چینل نے ہنسی کرونیے کی زندگی پر بننے والی فلم بھی چلا دی تھی۔ ہنسی کرونیے کرکٹ کا ہی نامور کھلاڑی تھا جسے بکیوں نے گھیرا او رکرکٹ میں ہونیوالی ’’فکسیشن‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس نے بکیوں کے ہاتھوں میں کھیل کر خود کو اس کھیل کے اصلی شائقین سے دور کر لیا اور فلم میں بھی اس کا کردار ادا کرنیوالے فلم ایکٹر کو ’’بُک بُک‘‘ رونا پڑا اور بالآخر ہنسی کرونیے ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوا مگر اس کا نام اس حوالے سے ایک سند ہے جس طرح آصف اقبال نے برصغیر کے کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں کو کیری پیکر کے حوالے کیا جس نے تھوڑے ہی عرصے میں کرکٹ کو ایک بڑی انڈسٹری کا درجہ دے دیا او رکھیل میں نام اور کام بنانے والے مال و دولت میں کھیلنے لگے۔ دوبئی کے شیوخ نے تو بہت بعد میں اس طرف نظر کی اور کرکٹ کا ایک اہم میدان دوبئی کو بنایا۔ آج کل بھی دیکھیں تو دوبئی کرکٹ کے حوالے سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اور بعض ممالک جو میچ اپنے ملکوں میں سکیورٹی یا دیگر وجوہات کی بنا پر نہیں کر اسکتے وہ ایسے میچ دوبئی میں رکھ لیتے ہیں اور ان ممالک کے علاوہ پوری دنیا بھی ان مقابلوں کو نہ صرف دیکھ سکتی ہے بلکہ ان میں اپنی اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو بُک بھی کر لیتی ہے۔کرکٹ کو لائم لائیٹ میں آئے ہوئے اب کافی دیر ہو گئی ہے لہٰذا وقت کا مارجن بھی یہ کھیل حاصل کر رہا ہے جبکہ دوسری کھیلیں اس درجہ پر فائز نہیں ہو پائی۔ یورپ میں فٹ بال کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ کرکٹ کے مقابلے کی کھیل ہے۔ مگر دنیا کی دوسری بڑی گیم ہاکی کے مقدر ابھی تک نہیں کھلے اور اسکے کھلاڑیوں کو کافی شکایات ہیں۔ہاکی کے ایک سینئر کھلاڑی نے اپنی شکایت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ ساری صورت حال بھی واضح ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ جس ٹیم کو کھانے کے وقفے میں گنڈیریاں چوسنے کو دی جائیں اسکے کھلاڑیوں میں اعتماد اور انرجی بھی اسی لیول کی پیدا ہو گی۔چنانچہ ہمیں اپنے قومی کھیل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر غور کرنا چاہیے اور اس حوالے سے اپنے جذباتی ردعمل کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کرکٹ میں ناکام رہنے پر تو ہم کرکٹ کے کھلاڑیوں کی اس طرح باز پرس نہیں کرتے جس طرح ہاکی کے کھلاڑیوں کی کرتے ہیں کہ کسی عالمی ٹورنانمنٹ میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے والی ٹیم کو ایئرپورٹ کے مرکزی دروازے سے باہر نہیں آنے دیا جاتا اور اسکے کھلاڑیوں کو چھپ کر باہر آنا پڑتاہے کہ باہر ردعمل دکھانے والی طاغوتی طاقتیں اپنے طاغوتی عزائم کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔
دنیا میں مختلف خطوں میں مختلف کھیلیں موجود ہیں اور معروف ہیں جس طرح یورپ میں فٹ بال ایک مقبول کھیل ہے اس طرح بعض علاقوں میں بیس بال، باسکٹ بال اور مشرقی پنجاب میں کبڈی نامور کھیلیں ہیں اور لوگوں میں جذباتی حد تک مقبول بھی ہیں۔ مگر انکے حصے میں بھی وہ رعنائی اور تمکنت نہیں آئی جو کرکٹ کو حاصل ہے۔ اس کی وجہ اس میں روپے پیسے کی آمد اور شوبزنس کے ساتھ اسکی جڑت ہے۔