نویں روز وزیراعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی نے پنجاب اسمبلی گیلری کمیٹی کے ساتھ کمیٹی روم میں میٹنگ کی۔ کچھ پھنے خان قسم کے اکھڑ مزاج ارکان اسمبلی پنجاب بھی کمیٹی روم میں ازخود داخل ہوئے۔ غلام مصطفی کھر نے انہیں فی الفور وہاں سے نکل جانے کو کہا۔ خلد آشیانی محترم نثار عثمانی بھی اس میٹنگ میںشرکت کیلئے خود تشریف لائے تھے۔
سیاستدان‘ صحافیوں کے مدمقابل تھے۔ کھر صاحب نے اپنی پارٹی کے رکن اسمبلی کی حرکت پر معذرت کی اور کہا کہ مرزا بیگ اسمبلی میں دو ٹوک الفاظ میں معذرت کریں۔ لہٰذا آپ کارروائی کی رپورٹنگ کا بائیکاٹ ختم کر دیں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔روزنامہ نورائے وقت کے اداریوں اور اس میں شائع ہونے والے کالموں میں بھٹو شہید کے عہد حکومت کی بعض پالیسیوں پر بے رحمانہ تنقید کی جاتی رہی مگر پریس کانفرنسوں اور مختلف تقریبات میں آمنا سامنا ہونے پر کبھی شہید بھٹو یا اس دور کے کسی صوبائی یا وفاقی وزیرنے ہلکی سی خفگی یا ناراضی کا تاثر دیا ہو۔جنرل ضیاء الحق کا دورسفاکانہ آمریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس دور میں مارشل لاء کورٹ کی طرف سے کچھ صحافیوں کو پابند سلاسل کیاگیا۔ کوڑوں کی سزائیں ہوئیں مگراس دور میں بھی سیاسی عناصر نے اپنی حدود کی پاسبانی کے فرض کو فراموش نہ کیا۔ یہ بات ضرور ہے کہ فوجی حکمرانوں نے مخصوص مقاصد کے تحت جن ساہوکاروں‘ تاجروں‘ کارخانہ داروں کی جس کھیپ کو سیاست کے تالاب میں داخل کرکے پانی کو گدلا کیا‘ ان نووارد عناصر نے حرص اور طمع کے رسوائے زمانہ راستوں کو اختیار کرکے قابل فخر سیاسی آداب کے بخیے ادھیڑے دیئے۔ انہوں نے عوام کے دلوں کی ترجمانی کرنے والے اہل صحافت کو ملازمتوں سے نکالنے اور ان کو تجزیہ نگاری کے فرائض سے سبکدوش کرانے کیلئے اپنی دھن و ولت سے کام کیا مگر مدمقابل آنے پر ایسے نوآموز کٹھ پتلی نما حکمران بھی اپنی پیشانیوں کو اپنے غصے سے عرق آلود کرنے کے سوا اور کسی گستاخی کے مرتکب نہ ہو سکے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد شہید بینظیر بھٹو کا دور حکومت تو خالصتاً سیاستدانوں کا دور تھا۔ اس دور میں حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں‘ بیڈ گورننس‘ بدعنوانیوں کے پھلنے پھولنے ‘ بے جا نوازشات کے تحت اخبار نویسوں نے برسراقتدار سیاستدانوں کو کھرے کھرے سوالات کرنے اور انہیں اس حوالے سے زچ کرنے کا سلسلہ بام عروج پر پہنچائے رکھا مگر حکمران سیاسی عناصر اس قسم کے خفت اٹھانے والے ماحول میں بھی دانت پیستے رہنے پر ہی اکتفا کرتے رہے۔ شہید بینظیر بھٹو کے دور حکومت کے بعد ایک دفعہ پھر جب اقتدار میاں نوازشرشف کا مقدر بنا تو بلاشبہ یہ دور ایک طرف قومی اور ملکی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے اور ارباب سیاست کیلئے قومی خزانے سے بنکوں کے ذریعے جاری رقوم کے قرضے لیکر شوگر ملیں‘ ٹیکسٹائل کے کارخانے اور تیل کی فیکٹریاں لگانے کی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ تو اس کے ساتھ ہی ایسی حکومتی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرنے کیلئے قلم کو حرکت دینے والے ان رہے سہے صحافیوں کو رزق کی مار دینے کیلئے مخصوص قسم کے مالکان پرنٹ میڈیا سے التجائیں کی جاتی رہیں۔ مارشل لاء دور کے پروردہ لوگ سیاستدانوں کی قطار میں خود کو شامل ہوکر صحافیوں کی تنقید پر ان سے مصافحہ کرنے سے انکار یا ان کی سلام کا جواب نہ دینے کے سوا اور کس گستاخی کے ارتکاب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دور شروع ہو گیا تھا جس میں سیاستدان منڈی کا مال بن گئے۔ صحافی انمول نہ رہے تو اس میں اچنبھے کا اظہار معنی نہیں رکھتے۔ الیکٹرانک میڈیا کی ہما ہمی میں وفادارانہ مشن پر قائم رہنے کی روایات نے دم توڑ دیا۔ خبر کے بے سروپا ہونے پر اس کی تردید صحافی کیلئے پیشے سے بے وفاقی اور خود کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرانے کے مترادف ہوتا ہے مگر الیکٹرانک میڈیا کے خودساختہ معیار کے مطابق سب کچھ جائز ہو گیا۔ نفسانفسی نے کچھ اس طرح قدم جمائے کہ کیا سیاستدان‘ کیا صحافی بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سبھی اپنی اپنی چوکڑی بھول گئے۔ اپنے اپنے پیشے کی حدود و قیود اور آداب و تقدس کا کسی کو کوئی ہوش نہ رہا۔ نظروں کے سامنے ستائش باہمی کی فضا میں پرورش پانے والی نوخیز اور کچی کونپلیں مرکزی رہنمائوں اور سینٹر کے تاج سر پر سجانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی فضا میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس تہلکہ آمیز خبرنے قوم کو چونکا کر رکھ دیا کہ ایک وفاقی وزیر نے ایک صحافی کو مکہ مار کر لڑکھڑا دیا۔ گواہ ایک دو نہیں کئی ایک مقتدراداروں کے سربراہ کی موجودگی میں اور کچھ نوخیز مگر سینئر صحافیوں (الیکٹرانک میڈیا) کے ہوتے ہوئے۔
یا خدا! کسی سیاستدان یا کسی حکمران پارٹی کے سیاستدانوں کی طرف سے ملکی سیاسی تاریخ میں تنقید یا بے بنیاد الزام پر سیخ پا ہوکر شائستگی اور شرافت کی صدیوں پر محیط روایات کی دھجیاں اڑانے پر قلم پکار اٹھتا ہے۔ آہ سیاستدان!
انا للہ و انا الیہ راجعونO … (ختم شد)