معروف شاعر نامور مذہبی سکالر سید محمد ضیا محی الدین گیلانی بہت دلنواز شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کا نعتیہ مجموعۂ کلام ’’خیال طیبہ،، اور ’’غزلیات‘‘ پسند کی گئی ہیں۔ گیلانی صاحب کی غزل میں بھی نعت کا انداز ہے۔ غزل کا بنیادی مخاطب محبوب ہے اور دنیا کے محبوب ترین انسان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اردو ادب میں اس کی بڑی مثال منیر نیازی ہیں۔ گیلانی صاحب کے ہاں بھی منیر نیازی کی طرح غزل اور نعت کے امتزاج سے ساری شاعری کا مزاج بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ مسلمان ہونے کاتخلیقی انداز رکھتے ہیں۔ وہ فاضل درس نظامی مکمل عالم دین اور مفتی بھی ہیں۔
میرے ایک دوست خالد مفتی علم و ادب سے بہت رابطہ رکھتے ہیں۔ میں انہیں مذاق مذاق میں کہتا ہوں کہ تم عجیب مفتی ہو جس نے عمر بھر کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ گیلانی صاحب نے فتوے دئیے ہیں جو دل و جان کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ہمارے مولوی صاحبان کو گیلانی صاحب جیسا سوز و گداز رکھنا چاہئے۔
پورا مذہبی سکالر وہی ہے جو سوز و ساز اور درد و گداز رکھتا ہے۔ ان کی گفتگو میں بھی گمشدہ آرزو اپنا سراغ دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔
سید محمد ضیا محی الدین گیلانی ارمانی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عجیب حقیقت ہے کہ خطۂ پنجاب کے سارے نامور صوفیائے کرام شاعر تھے۔ پاکپتن کے بابا فرید سے لے کر تونسہ شریف کے سرائیکی کے خواجہ فرید تک شاعر تھے جبکہ بھارتی پنجاب میں ایک بھی صوفی شاعر نہیں ہے۔
گیلانی صاحب اس حقیقت کو دل میں سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ حقیقت کو حکایت بنانے والے اس قبیلے کے ساتھ اُن کا تعلق ہمیں روحانیت کی دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو صوفی نہیں ہے وہ شاعر بھی نہیں ہے۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خانِ اعظم منیرنیازی نے کہا
جیڑیاں تھانواں صوفیاں جاکے لئیاں مل
اوہ اوہناں دے دور دی تاب نہ سکیاں جھل
اکو کوک فرید دی سُنجے کر گئی تھل
گیلانی صاحب منیر نیازی کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ یہی وابستگی آگے چل کر وارفتگی بنتی ہے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے نعت کہنا شروع کی۔ حفیظ تائب منیر نیازی اور مصطفیٰ زیدی کی موجودگی میں پاکستان ٹیلی وژن کے مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کا اعزاز گیلانی صاحب کو حاصل ہے۔ میں بھی ان مشاعروں میں شریک تھا۔ گیلانی صاحب کو بہت پذیرائی ملی۔ وہ نعت کے حوالے سے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ’’قاضی ابو یوسف کے فیصلے،، کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔ قاضی صاحب ہارون الرشید کے زمانے میں چیف جسٹس تھے۔
وہ تاریخی شہر ہڑپہ میں قیام پذیر ہیں۔ اس گمنام علاقے میں انہوں نے علم و ادب کی شمع روشن کی ہے۔ انہوں نے کئی مذہبی اجتماعات میں لوگوں سے خطاب کیا ہے۔ ایک بڑے عالم دین کے لیے علم و ادب کا ذوق و شوق کا ہونا بہت بڑی نعمت ہے جس سے دوسروں کو بھی فائدہ ملتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے شہروں اور خاص طور پر لاہور سے باہر کے علاقوں میں یہ بات بہت اثرات رکھتی ہے۔
سید محمد ضیا محی الدین گیلانی کی ایک نعت اور ایک غزل کے کچھ اشعار اس کالم میں شامل کر رہا ہوں۔ نعتیہ اشعار یہ ہیں۔
میری زندگی کی ہر اک گھڑی اسی ذات پر ہی نثار ہے
وہی ذات جس کے وجود سے یہ زمیں زماں کی بہار ہے
مجھے کارزارِ حیات میں یہ سکون ملنا محال تھا
تیری رحمتوں کے طفیل ہی میرے باغ جاں پہ نکھار ہے
مجھے تخت و تاج سے کیا غرض مجھے کام جاہ وحشم سے کیا
میں گدائے کوئے رسول ہوں میرا کتنا اونچامقام ہے
غزل کے کچھ اشعار
انداز بیاں تیرا کیا خوب نرالا ہے
ہر لفظ محبت کا رنگین حوالہ ہے
کچھ حسنِ عمل میرے دامن میں نہیں لیکن
آقا کی غلامی کا بس ایک حوالہ ہے
اُن آنکھوں میں جو ڈوبا وہ ہوش میں کب آیا
یہ آنکھوں کی مستی بھی کیا مے کا پیالہ ہے
نامور دانشور اور معروف شاعرہ عمرانہ مشتاق نے اپنی تنظیم کا نام لائف رکھا ہے۔ لائف بڑے کم وقت میں علم و ادب سے متعلق لوگوں میں معروف ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پڑھنے لکھنے والوں میں یہ نئی تنظیم بہت جلد ا پنا مقام بنا لے گی۔ عمرانہ مشتاق نے تنظیم کے کئی شعبے بنائے ہیں جو پوری آزادی سے اپنا کام کریں گے اور ایک ایسا ماحول بنے گا جس پر سب لوگ فخر کریں گے۔
بہت دور آباد علاقے بہاولنگر ہارون آباد سے ایک سماجی اور علمی ادبی شخصیت مریم ناز جو ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔ لائف کے لیے نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔ یہ اُن کا اعزاز ہے اور تنظیم لائف کے لیے اچھے جذبات کی ترجمانی ہے۔