قومی اسمبلی : مریم اورنگزیب کے عمران کو سلیکٹڈ کہنے پر سرکاری ارکان کا احتجاج، نیا نہیں قائد کا پاکستان دو: بلاول

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، نمائندہ نوائے وقت، ایجنسیاں) منتخب وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس قضیہ کی بازگشت پیر کے روز بھی قومی اسمبلی میں سنائی دی۔ بلاول بھٹو نے اس حوالہ سے کہا کہ نیا پاکستان ’’سنسرڈ‘‘ پاکستان ہے۔ اور تاریخی سنسر شپ عائد کر دی گئی ہے۔ عمران خان کی جانب سے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا انکوائری کمشن غیر آئینی ہے۔ مسلم لیگ کی ترجمان اور ایم این اے مریم اورنگزیب نے تو لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘ کی جگہ وزیر اعظم کو ہینڈ پکڈ قرار دے دیا۔ یہ معاملہ اس وقت وجہ نزاع بنا جب مریم اورنگزیب نے وزیر اعظم کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہا۔ سرکاری ارکان نے اس پر احتجاج کیا اور ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے مریم اورنگزیب سے کہا کہ یہ لفظ استعمال نہ کریں جس سے منتخب ایوان کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہو، بعد میں خود ہی کہیں گی کہ ایوان کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔ مریم اورنگزیب نے اس تنبیہ کے فوراً بعد وزیر اعظم اور ان کی حکومت کیلئے ہینڈ پکڈ کی اصطلاح استعمال کی۔ بعد ازاں اجلاس کی صدر نشین منزہ حسن نے بھی رولنگ دی کہ منتخب وزیراعظم کو سلیکٹڈ نہیں کہا جاسکتا جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ اس ایوان میں سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگائی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب منتخب ممبران کو چور اور ڈاکو کہا جارہا ہے کیا یہ جائز ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ عمر ایوب خان نے ایک لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘ کے خلاف تحریک استحقاق لانے کی بات کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیا پاکستان سینسرڈ پاکستان ہے جو ہمیں نامنظور ہے۔ نئے پاکستان میں آزادی ہی نہیں ہے۔ سنسرشپ اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مائیک بند کردیے جاتے ہیں۔ ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنا بھی سنسرشپ ہوتا ہے۔ میری غیر موجودگی میں ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی میں ’ سلیکٹڈ ‘ لفظ کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے، یہ انگریزی کا لفظ ہے جس کے معنی ہے منتخب کیا گیا، یہ کوئی غیر پارلیمانی لفظ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی انا کی وجہ سے قومی اسمبلی میں میرے لفظ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ تاریخی سنسرشپ ہے۔ ارکان قومی اسمبلی کے فلور پر آزاد نہیں ہیں بول نہیں سکتے۔ آپ کا اختیار ہے کسی بھی لفظ کو حذف کرسکتے ہیں لیکن حکومت کا کوئی لفظ حذف نہیں کیا جاتا، کسی لفظ پر پابندی عائد نہیں کی جاتی، اپوزیشن کے ہر دوسرے لفظ کو حذف کرنا بھی سینسر شپ ہے۔ حکومت اپنی تمام پالیسیوں پر نظر ثانی کرے، عوام دشمن بجٹ واپس لے، نیا پاکستان واپس لے اور قائد کا پاکستان ہمیں واپس دے۔ یہ ایوان پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرتا ہے، پاکستانی عوام نے ہمیشہ آمروں کو روک کر جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں۔ ہم پارلیمنٹ کا تقدس جانتے ہیں، کچھ ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ کے تقدس کا علم نہیں، پارلیمنٹ میں معاشی مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم اپوزیشن کی تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ جو بھی سمجھتا ہے کہ سنسر شپ سے ماحول بہتر ہوگا میں انہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ صرف آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں۔ فرسٹریشن سامنے آئے گی جس کے صرف منفی نتائج پیدا ہوں گے۔ سنسرڈ پاکستان مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ ایک آزاد پاکستان اس کا حل ہے۔ لوگوں کو خوفزدہ کرکے ٹیکس اکٹھا نہیں کیا جاسکتا، جس کے اکاؤنٹ میں 5لاکھ روپے ہیں اب اسے حساب دینا ہوگا۔ ہم عوام دشمن بجٹ برداشت نہیں کرسکتے، حکومت کو انصاف کرنا ہوگا ورنہ گھر جانا ہوگا۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان ہوگا لیکن ہم نے دیکھا کہ ایک نہیں دو پاکستان ہے، پی ٹی آئی، آئی ایم ایف کا بجٹ امیر کو ریلیف دیتا ہے اور غریب پر بوجھ ڈالتا ہے۔ غریب کے لیے ٹیکسز کا طوفان، مہنگائی کی سونامی اور بے روزگاری جبکہ چور اور ڈاکوؤں کے لیے ایمنسٹی سکیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ آج بھی ہم معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں تو امیروں کو ایمنسٹی سکیم دیتے ہیں اور اپنے کسانوں، مزدوروں اور نوجوانوں کا معاشی قتل کررہے ہیں۔ سادگی کے نام پر گاڑیاں نیلام کی گئیں لیکن وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر کا بجٹ بڑھانا منافقت ہے۔ پی پی، ن لیگ سے زیادہ قرضہ لینے والے کس منہ سے حساب مانگ رہے ہیں، غریب کی جھونپڑی حرام اور بنی گالہ کا محل حلال ہے۔ یہ ایوان بالادست ہے، جو ادارے اس ایوان کو جوابدہ ہیں وہ کیسے اس ایوان کا احتساب کرسکتے ہیں؟ ہمیں آمروں کے اقدامات سے اور ربڑ اسٹیمپس پارلیمانوں کے فیصلوں سے تحقیقات کرنی چاہیے۔ نیب نے برطانیہ میں تحقیقات کیلئے جو پیسہ ضائع کیا اس کی تحقیقات کی جائیں، کمشن کارکے اور ریکوڈک فیصلوں سے تحقیقات شروع کرے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر وزیرستان کے ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر نے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ میں لکھا جائے گا بجٹ کی منظوری وقت وزیرستان کی نمائندگی نہیں تھی جبکہ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ مجھے ہفتے کو ان کی درخواست ملی ہے جسے وزارت قانون کو بھیجا ہے۔ پی پی چیئرمین نے دیگر ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے ارکان کو اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے، دیگر ارکان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری کیے جائیں۔ اس پر سپیکر نے رولنگ دی کہ مجھے ہفتے کو ان کی درخواست ملی ہے جسے وزارت قانون کو بھیجا ہے۔ بلاول نے کہا کہ آپ سے بحث نہیں کرسکتا، سپیکر کو وزارت قانون سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...