سہیل عبدالناصر
وزیر اعظم عمران خان اپنے عرصہ اقتدار کے فیصلہ کن مرحلہ میں آن پہنچے ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہو چکا ہے۔ بجٹ پر عام بحث جاری ہے ۔ بلوچ سردار اختر مینگل نے کہنہ مشق سیاست دان کی طرح، عین اس وقت وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے جب ایوان زیریں سے بجٹ منظور کرانے کا چیلنج درپیش ہے۔ قوی امکان ہے آئندہ سال کا میزانیہ منظور کروا تو لیا جائے گا لیکن اتحادیوں کے ساتھ کچھ نئے لین دین کیے بعد ۔ اس سودے بازی کیلئے درمیان میں کم وقت ہے۔ بظاہر عمران خان کی حکومت ڈانواڈول ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ مقتدر حلقوں کا دست شفقت ابھی اسے میسر ہے ،لیکن اصل امتحان بجٹ منظور ہونے کے بعد درپیش ہیں۔انگریزی ضرب المثل کے مطابق پاکستان بھنور کی آنکھ میں پھنسا ہے۔ ایک سے بڑا ایک چیلنج ہے۔ دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان چیلنجوں کو مواقع میں بدل پائیں گے۔ وزیر اعظم خوش قسمت ہیں کہ جی ٹونٹی ملکوں ، چین، اور آئی ایم ایف سے قرضوں کی ادائیگی کا عارضی ریلیف مل گیا ہے۔یعنی سانس لینے کی مہلت مل چکی ہے۔ سردست اپوزیشن سے ، کوئی حقیقی خطرہ نہیں۔کورونا وائرس ، قلانچیں بھر رہا ہے لیکن بقول حکومت کے، فی الحال معاملات قابو میں ہیں۔افغانستان کی طرف سے بھی کچھ سکون کا سانس ملنے کا موقع پیدا ہوا ہے جس کا اعلیٰ عسکری قیادت کی سطح پر بھی اظہار کیا گیا ہے۔البتہ وزیرستان میں چھپ کا حملے جاری ہیں اور اب سندھ میں بھی سیکورٹی اداروں پر حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ تاہم مجموعی حالات اس نہج پر ہیں وزیر اعظم عمران خان قدرے یکسو ہو کر آئندہ کی سیاسی و معاشی حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔ پنتالیس برسوں کے دوران پہلی بار چین اور بھارت کے درمیان ایک بڑی فوجی جھڑپ ہوئی جس میں لیفٹیننٹ کرنل سمیت کم از کم بیس بھارتی فوجی مارے گئے ہیں۔ چین بھارت کشیدگی، کیا پاکستان کیلئے ایک موقع ہے؟یہیں قیادت کی دانش اور جرات کا امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ اس جھڑپ کا 1962 کی چین بھارت جنگ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جب بقول جناب قدرت اللہ شہاب پاکستان میں متعین چینی سفیر نے صدر ایوب خان کو نیند سے اٹھا کر جنگ کے بارے میں آگاہ کیا لیکن صدر پاکستان کو نیند عزیز تھی سو وہ جلد ہی دوبارہ سو گئے۔بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی ، ان کے وزیر دفاع اور صبح شام جنگ کے راگ الاپنے والا بھارتی میڈیا، چین کے سامنے دبک گیا ہے۔مودی تو یہ تک کہہ گئے ہیں کہ نہ کوئی ہمارے علاقہ میں گھسا ہے اور نہ ہی دراندازی ہوئی ہے جب کہ دنیا کے اہم دارلحکومتوں میں حکام متفق ہیں کہ حالیہ پیشرفت کے دوران چین نے لداخ کے کم از کم پنسٹھ مربع کلومیٹر اس علاقہ پر قبضہ کر لیا ہے جسے وہ تاریخی طور پر اپنی ملکیت قرار دیتا آیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل اور دشوار گزار کوہستانی و برفانی حد بندیوں پر چین اور بھارتی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑی ہیں۔چین کو یہ فائدہ ہے کہ اس نے برسوں پہلے ان علاقوں میں زمینی اور فضائی رسد کے بہترین انفراسٹرکچر قائم کر لئے تھے۔ وادی گلوان کے جس علاقہ میں اب چین نے پیش قدمی کی ہے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کے محاذ کے قدرے قریب ہے۔ یہاں کا دریائے گلوان، اس دریائے شیوک کا حصہ بن جاتا ہے جو کنٹرول لائن کے اولڈنگ سیکٹر کے ذریعہ کرگل قصبہ کے قریب تک جانے والی پاکستانی سڑک کے ساتھ بہتا ہے۔ اگرچہ چین اور بھارت، دونوں نے اس علاقہ میں اپنی فوجی موجودگی کی مکمل طور پر درست اطلاعات جاری نہیں کیں ہیں لیکن قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ،سیاچن گلیشیر کیلئے بھارت کا زمینی روٹ ، اب پاکستان اور چین ، دونوں کی زد میں ہے۔ چین سے مار کھانے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ بھی سفارتی اور فوجی چھیڑ چھاڑ بڑھا دی ہے۔آئندہ مہینوں میں بھارتی جارحیت خارج از امکان نہیں۔ لیکن اب بھارت کو سوچ سمجھ کر پاکستان کے ساتھ محاذ جنگ کا انتخاب کرنا پڑے گا ۔ ملک کے اندر سب اچھا ہو گا تو بھارت سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔ سردست تو حالات یہ ہیں کہ سردست عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی حقیقی خطرہ نہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے اندر اقتدار کا کھیل چل رہا ہے۔ ایک وقت تھا اسد عمر، بے وقعت ہوئے۔ یہ ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔پھر چشم فلک نے جہانگیر ترین ترین کو معتوب ہوتے دیکھا۔یہ پہلے سے بھی زیادہ ناقابل یقین منظر تھا۔ اسد عمر پھر پہلے والی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں۔ اب تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک انٹرویو کے دوران لگی لپٹی رکھے بغیر ان لڑائیوں کا تمام تر احوال بیان کر دیا ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اٹھارہ ماہ کے اقتدار کے دوران داخلی سیاسی معرکوں کی بدولت حکمران جماعت کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ چینی کے معاملہ پر نیب کی کاروائی شروع ہو گی تب پتہ چلے گا کہ پارٹی کے اندر مزید کون سے مہرے کھسکنے والے ہیں۔ پارٹی کے اہم ترین عہدیداروں کی سرعت سے اکھاڑ پچھاڑ،دیگر راہنمائوں اور کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میںمتردد کر دیتی ہے۔پارٹی قیادت پر اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ سیاست و اقتدار کے سفر میں اس قدر تیز رفتاری ٹھیک نہیں ہوتی۔دھیرے دھیرے چلنا ، پائیداری و استقامت ملتی ہے۔ سیاسی ہم سفروں کو بھی اعتماد حاصل ہوتا ہے۔یہاں تو کوئی پتہ نہیں، کل کسے قرب شاہاں میسر ہو گا؟ ۔ ایوان زیریں کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف چونکہ کووڈ۔19 کا شکار ہونے کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف امریکی خاتون کے الزامات کی دھول کچھ تھمی ہے لیکن اسی دوران سیاست کے کہنہ مشق کھلاڑی مولانا فضل الرحمٰن باہر نکل آئے ہیں۔قوی امکان ہے کہ بجٹ کے بعد وہ بتدریج اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تحرک پیدا کریں گے۔ ضامنوں کے ساتھ ان کے روابط برقرار ہیں۔بظاہر وزیر اعظم عمران خان بدستور پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں کسی مخالفانہ سیاسی سرگرمی کا نہ تو سامنا ہے اور نہ ہی انہیں اس کی زیادہ فکر ہے۔
ملک بحرانوں سے نکل گیا تو حکمران ہیرو بن کر ابھریں گے
Jun 25, 2020