اطلاعات آرہی ہیں کہ چین کے خطے میں اثر بڑھنے سے بنگلہ دیش کے اندر بھی سوچ بدل رہی ہے۔ چین بنگلہ دیش میں سوندھیاں بندرگاہ تعمیر کرنے جارہا ہے۔ کانگریس کی حکومت میں بھارت میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ اگر2014ء الیکشنمیں عوامی لیگ بنگلہ دیش میں شکست کھاگئی تو کہیں وہاں چین کی حامی حکومت نہ بن جائے جس سے بھارت کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارت کے سات ارب ڈالر کے مقابلے میں چین نے بنگلہ دیش میں 30 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ یہ سرمایہ کاری بنگلہ دیش کو اس لئے بھائی اور ان کی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ بہتر دکھائی دی کیونکہ اس میں کوئی شرائط نہیں تھیں۔ بھارتی سرمایہ کاری کے ساتھ ’’اگرچہ، چونکہ، چنانچہ‘‘ جیسے بہت سے سابقے اور لاحقے تھے جس سے بنگلہ دیش بھی تنگ تھا لیکن اس کے پاس بولنے کا چارہ اور یارہ نہیں تھا۔ یہی وہ تبدیلی ہے جسے خود بھارت کے اندر بھی اب محسوس کیاجارہا ہے اور وہاں کے میڈیا کی نامور شخصیات باضابطہ طورپر اس کا اعتراف بھی کررہی ہیں۔ مودی سے سوال کئے جارہے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ بھارت کو خطے میں بھی تنہا کردیا۔ 2018تک بنگلہ دیش کو بھارت کی کلائنٹ سٹیٹ سمجھاجاتا تھا، وہ بھی اب بھارت کے ساتھ نہیں۔
بنگلہ دیش کی طرح اب میانمار، نیپال اور بھوٹان بھی بھارتی اثر سے نجات پارہے ہیں۔ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے نشے میں چور ہندوستانی حکمران علاقائی ممالک کو راجدھانی سمجھے ہوئے تھے اور خود کو علاقے کا واسرائے تصور کئے ہوئے تھے۔ نیپال کا لینڈلاک ملک بھی اب بھارتی محتاجی سے نکل کر آزادوخودمختار گورکھا بن گیا ہے۔ ڈوکلام پرجب چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی جاری تھی تو بھوٹان نے خاموشی اپنائی ہوئی تھی۔ بھوٹان اور بھار ت کے درمیان 699 کلومیٹر سرحدی پٹی ہے جس میں سے بھارتی ریاست آسام کا 276 کلومیٹر کا رقبہ شامل ہے۔ یہ تجزیات بھی انتہائی دلچسپ ہیں جن کے مطابق چین کی نظریں اب بھارتی ریاست اروناچل پردیش پر ہیں۔ اس ریاست کے ٹوٹتے ہی مزید سات ریاستیں بھارت سے الگ ہوجائیں گی۔ارونا چل پردیش کا مطلب ’’صبح روشن کی سرزمین‘‘ بتایاجاتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب کی طرف بھوٹان، مشرق کی طرف میانمار کے ساتھ جُڑی ہے۔ شمال میں میک موہن لائن پر چین کے ساتھ متنازعہ سرحد ہے۔ اتناگر ارونا چل پردیش کا دارالحکومت ہے جو بھارت کی شمال مشرقی سات ریاستوں میں سب سے بڑی ہے۔ ’سسٹرسٹیٹس (Seven Sister States) یا ایک جیسی سات ریاستوں کی اصطلاح میں آنے والی یہ ریاستیں ارونا چل پردیش، آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورام، ناگا لینڈ اور تری پورہ ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بھارت کے خلاف آزادی کی تحاریک برپا ہیں۔ باغی اسلحہ کے زور پر بھارتی غلامی سے نجات کی تحریکیں چلارہے ہیں۔چین کے اثر اور اس کی عملی پیش قدمی نے خطے میں امکانات کے کئی در کھول دئیے ہیں۔ چین کی فوج اور صلاحیت بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ بھارت دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدتا ہے۔ چین ہر طرح کا اسلحہ خود بناتا ہے۔ چین صرف عسکری ہی نہیں بلکہ بھارت کو عالمی سطح پر بھی تنہا کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ سادہ الفاظ میں چین ہر طرح سے ’’پورا پارا‘‘ ہے۔
چین کے ساتھ تصادم میں مارے جانے والے بھارتی فوجی افسروں اور جوانوں کے اہلخانہ اور ریٹائر فوجی افسران نے بھی بھارت کے چیف آف ڈیفنس سروسز جنرل بپن راوت کو خط لکھا ہے جس میں سوال پوچھا گیا ہے کہ ’’چین کے ساتھ تصادم میں ہمارے فوجی افسر اور جوان شہید کیسے ہوئے؟ چین نے دفاع میں کارروائی کی تو بھارت نے جارحیت کیوں کی؟ وادی گلوان میں کیا ہوا، اس کی حقیقت اور سچائی بیان کی جائے؟؟
مودی نے بھارت میں جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی اس میں یہ کہاکہ ’’چین نے بھارت کے ایک انچ رقبے پر قبضہ نہیں کیا‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کا یہ بیان سوفیصد سچ ہے کیونکہ یہ رقبہ بھارت کا تھا ہی نہیں۔ دوسری طرف چین کا یہ بیان بھی سچائی پر مبنی ہے کہ انہوں نے بھارتی علاقے میں مداخلت نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ان کا ہی تھا جس میں مداخلت اور جارحیت کرنے پر چین کو بھارتی فوج کے خلاف اپنے دفاع میں کارروائی کرنا پڑی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ہی سچ بول رہے ہیں۔ عام تاثر ہے کہ چین 135 کلومیٹر اندرآچکا ہے اور بھارت کے اڑھائی سو فوجی مارے جاچکے ہیں۔ لداخ اور جموں وکشمیر کے رہائشی یہ دلچسپ گفتگو کرتے سنے جارہے ہیں کہ چینی فوج نے بھارتی فوجیوں کو 135 کلومیٹر بھگایا، چین نے مودی کو سکھایا کہ سرجیکل سٹرائیک ہوتی کیا ہے؟ چینی کارروائی کا اتنا گہرا اثر ہوا ہے کہ ’بروس لی‘ کی یاد تازہ ہوگئی ہے اور عوامی زبان میں چینی کارروائی کا یہ کہہ کر اعتراف کیاجارہا ہے کہ ’’چینی فوجیوں کے ہاتھ گولی سے تیز چلتے ہیں۔‘‘لداخ اور جموں وکشمیر کے رہنے والے یہ کہتے سنے گئے کہ اب بھارت کو 370 آرٹیکل واپس کرنا پڑے گا کیونکہ پینگانگ جھیل چین کے پاس چلی گئی تو بھارت کے پاس آخر رہ کیاجائے گا؟؟؟
ایک چینی کارروائی نے پورے خطے کے جغرافیائی، سیاسی، سفارتی اور تزویراتی حقائق یک لخت بدل کر رکھ دئیے ہیں۔ چینی ڈریگن نے بھارت کو اژدھے سے کینچوے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان چاہے تو چین سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ (ختم شد)