اور کوئی چارہ کار نہیں تھا!

کرونا وائرس کی آندھی پورے زور پر تھی،کہ عید الفطر منانے کے لئے عوام کی آرزوؤں اور اُمنگوں کو کچلنے کی بجائے،دو ہفتے کے لئے لاک ڈائون میں نرمی کرنا پڑی ، توقع تھی،کہ عوام کرونا وبا کے حوالے سے تسلیم شدہ ہدایات ایس او پیز کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں گے لیکن افسوس کہ عوام نے اس کی چنداں پرواہ نہ کی۔ روزے اور گرمی کے باوجود دکانوں پر ہلہ بول دیاگیا، ملبوسات اور سامان تعیش والی دکانو ں میں رش کا یہ عالم تھا کہ پنجابی محاورے کے مطابق بندے پہ بندہ چڑھا ہوا تھا جسے اُردو میں کھوے سے کھوا چھلنا بھی کہتے ہیں۔ عیدوں اور تہواروں پر دکانیں خالی کردینے والوں کا تعلق صرف صاحب ثروت لوگوں سے ہوتا ہے۔ متو سط طبقہ بھی ان لوگوں کی نقالی میں فکر فردا کئے بغیر پیچھے نہیں رہتا۔ قرض اُٹھا کر بھی شوق پورا کرلیتا ہے۔ رہا غریب طبقہ تو وہ زیادہ سے زیادہ زیراستعمال کپڑوں کو استری کرانے پر ہی قناعت کرلیتا ہے تاہم ونڈو شاپنگ سے گریز نہیںکرتا۔ چنانچہ بازاروں اور دکانوں میں وہ لوگ بھی دیکھے گئے جنہیں نہ کچھ بیچنا تھا اور نہ ہی خریدنا۔ نتائج سے بے پرواہ ہجوم نے ایس او پیزکی مٹی پلید کرکے اپنا شوق پورا کیا۔کرونا وائرس بھی یہ تماشہ دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ میں ان کے دروازے پر دستک دینے کا سوچ رہا ہوں لیکن انہوں نے میری دستک کا بھی انتظار نہیںکیا اور دروازے کھول کر بازاروں کا رخ کرچکے ہیں، چنانچہ عید آئی ایس او پیز کی دھجیاں اُڑادیں۔ متوقع انجام سے بے خبر نہیں بلکہ لا پروائی کرکے عید منائی۔ لیکن پھر وہی ہوا جو خدا کی اس دنیا میں فطرت کے ضابطوں کی پابندی نہ کرنے والے سے ہوتا ہے۔کائنات نہایت محکم قوانین پر چل رہی ہے۔کائنات کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ وہ ہمیشہ ا س ضابطے کی پیروی کرتی ہے۔ اس طرح انسانی زندگی کیلئے بھی قدرت کا ایک مقررکیا ہوا ضابطہ ہے جو افراد اور قومیں ان ضابطوں کی پابندی نہیںکرتیں، ان کیلئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ حزن و ملال سے دوچار ہوتی ہیںاور پچھتاتی ہیں۔کرونا وائرس کے خلاف ایس او پیز کی رج کر خلاف ورزی کی گئی حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔ سمجھدار لوگ ہاتھ ملتے رہ گئے کہ عوام کیا کررہے ہیں۔ واضح ہو کہ اس حوالے سے ہم پاکستانی منفرد مثال نہیں، یورپی ممالک میں بھی فطرت کی دل کھول کر خلاف ورزی کی گئی ایک ایسے وقت میں جب تمام صلاحیتیں کرونا کی روک تھام کے لئے وقف کرنے کی ضرورت تھی اور کرونا نے انسانی جانوں کی فصل کاٹنا شروع کررکھی تھی، وہاں،کیا سائنسدان اور کیا سیاست دان، اس بحث میں اُلجھے ہوئے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام، یہاں تک کہ صدر ٹرمپ بھی سازشی تھیوری پر ایمان لانے والوں کی صف اول میں کھڑے تھے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کرونا وائرس ووہان (چین)کی لیبارٹریوںکی تخلیق ہے۔دلائل کے انبار لگائے جارہے تھے۔تعجب ہوتا ہے کہ سائنس دان بھی توہم پرستی میں پیچھے نہیں رہے۔ آمدم برسر مطلب، عید پر جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا اُس کا نتیجہ یہ نکلاکہ رمضان المبارک گزرنے کی دیر تھی کہ کرونا کی وباء یا آفت نے سپیڈ پکڑلی، اس صورت حال نے سب کو پریشان کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کی انسان دوستی تھی کہ انہوں نے عوام کو بھوک سے مرنے سے بچانے کیلئے معیشت داؤ پر لگادی،کرفیو اور مکمل لاک ڈائون سے حتی الوسع گریز کی پالیسی اختیار کی گئی، لیکن اب بات نہیں بنی،کیسز اور ہلاکتوں میں اضافے نے بالآخر حکومت کو سخت اقدامات پر مجبور کر دیا، ملک میں جہاں کیسز زیادہ ہیں اُن علاقوںکو ہاٹ سپاٹ قرار دیدیا گیا ہے۔ خود لاہور میں متعدد رہائشی علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔بے شک لوگوں نے بڑے خشوع و خصوع کے ساتھ آفت سے نجات کی دعائیں مانگیں اور مانگ رہے ہیں لیکن ہم سے چند لوگوں کا یہ عمل، مصیبت کی اس شدت کو اس لئے ختم یا کم نہیںکرپائیںکہ ہماری مثال اس چور یا ڈاکو کی ہے کہ جو واردات کے لئے نکلنے سے پہلے ’’کامیابی‘‘کے لئے دو نفل پڑھنا، نہیں بھولتا، امپیریل کالج لندن کے سائنسدان کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ بھلے غلط اور طوائف الملوکی پھیلانے کی کو شش ہو لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایس او پیز (احتیاطی تدابیر) صدق دل سے عمل کر کے ان سائنسدانوں کی تھیوری کو مبالغہ آمیز اور غلط ثابت کرسکتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن