قیام پاکستان سے نو سال قبل ضلع شیخوپورہ کے علاقے نارنگ کے نواحی گائوں کوٹ بھیلاں میں 1938میں تحریک پاکستان کے کارکن چوہدری نواب خاں ہنجرا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کانام چوہدری امانت علی ہنجرا رکھا گیا۔والدہ محترمہ کا نام رحمت بی بی تھا ۔یوں رحمت کے بطن سے نعمت خداوندی کی کرن پھوٹی۔نارنگ منڈی کے گائوں کوٹ بھیلاں کے اس سپوت نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول نارنگ سے حاصل کی۔پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان پا س کرکے وکالت کا پیشہ اپنا لیا۔چوہدری صاحب جس زمانے میں وکیل بنے اس وقت وکیل کو ضلع کے ڈی سی کے برابر سمجھا جاتاتھا۔چوہدری امانت علی ہنجرا ایڈوکیٹ اور ان کے بھتیجے چوہدری شوکت علی ایڈووکیٹ نے وکالت کے پیشہ کو مال و وولت کمانے کی بجائے اپنے والد اور والدہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہوکر خدمت خلق،فی سبیل اللہ پر مرکوز کردیا ۔ضلع شیخوپورہ، بالخصوص نارنگ منڈی کا شاید ہی کوئی قصبہ ،گائوں ایسانہ تھا جہاں کے عوام ان کے پاس سماجی ، معاشرتی، قانونی دادرسی کے لیے نہ آئے ہوں ۔خدمت امانت ،دیانت،شرافت،جذبہ حب الوطنی ،جرات و استقامت ،حق گوئی ،مظلوم کا ساتھ ظالم کو للکارنا حق کے ساتھ کھڑے ہونا اور باطل کو زیر کرکے چھوڑنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔چوہدری صاحب پاکستان مسلم لیگ ضلع شیخوپورہ کے سیکرٹری جنرل اور مسلم لیگ وکلا محاز کے ضلعی صدر بھی رہے۔ 25 جون 1995 ء کو وہ اپنے کولیگ وکیل محمد اسلم زار ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے چیمبر سے نکلے ہی تھی کہ مزنگ فیملی ہسپتال کے سامنے انہیں فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا ۔ یوں محبت و اخوت کا چراغ گل ہوگیا ۔ عوام الناس آج بھی چوہدری امانت علی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے ، عجب آزاد مرد تھا ۔ (چوہدری فرحان شوکت ہنجرا )